پاکستان کشمیرسمیت تمام تنازعات کا مذاکرات کے ذریعہ حل چاہتا ہے، 20 سال سے یہ روایت رہی ہے کہ پاکستانی وزیرخارجہ کے دورہ دہلی کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات ہوتی رہی ہے ، حکومت پاکستان اورپوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی سیاسی ، سفارتی اوراخلاقی حمایت جاری رکھے گی ، کشمیر اگرمذاکرات کے ایجنڈے پر ہے تو کشمیری رہنماؤں سے ملنے پر اعتراض کیوں ہے ، عالمی برادری بھارت کے رویے کا نوٹس لے ،سرتاج عزیز

وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیزکی اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس

ہفتہ 22 اگست 2015 19:48

اسلام آباد ۔ 22 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 اگست۔2015ء) وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کشمیرسمیت تمام تنازعات کا مذاکرات کے ذریعہ حل چاہتا ہے، 20 سال سے یہ روایت رہی ہے کہ پاکستانی وزیرخارجہ کے دورہ دہلی کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات ہوتی رہی ہے ، حکومت پاکستان اورپوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی سیاسی ، سفارتی اوراخلاقی حمایت جاری رکھے گی ، کشمیر اگرمذاکرات کے ایجنڈے پر ہے تو کشمیری رہنماؤں سے ملنے پر اعتراض کیوں ہے ، عالمی برادری بھارت کے رویے کا نوٹس لے ۔

ہفتہ کو دفترخارجہ میں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیزنے کہا کہ پاکستان کی جانب سے مشیرخارجہ کی سطح کے مذاکرات کیلئے تین نکاتی ایجنڈا دیا گیا تھا جس میں دہشت گردی ، مذہبی سیاحت اور لائن آف کنٹرول و ورکنگ باؤنڈری کی صورتحال اور کشمیر سرکریک سیاچن سمیت تمام متنازعہ ایشوز پر بات چیت کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا شامل تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیرکا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، بھارت کی جانب سے یہ واویلا حیران کن ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ مسئلہ کشمیرکو مذاکراتی عمل میں شامل کرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نئی دہلی میں ہونے والے مذاکرات سے کوئی بریک تھرو کی امید نہیں تھی تاہم کشیدگی کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی جبکہ یہ توقع بھی کی جاسکتی تھی کہ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکتی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو اوفا اعلامیہ کی پاسداری کرنی چاہئے جس میں دونوں ملکوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی 20 سال سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جب بھی وزیرخارجہ نئی دہلی کا دورہ کرتے ہیں تو وہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات بھی کرتے ہیں اگر کشمیر مذاکرات کے ایجنڈے پر ہے تو کشمیریوں سے ملنے پراعتراض کیوں ہے، کشمیر اہم مسئلہ نہیں تو وہاں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا کیا جواز ہے،ہم نے مسائل کو زیرغور لانے کیلئے طریقہ کار کا تعین کرنا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا مرکزی نقطہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگراہم مسائل ہیں، مشیر برائے خارجہ اموروقومی سلامتی نے کہا کہ سرکاری طور پر بھارت کی جانب سے مذاکرات منسوخ کرنے کے حوالہ سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال واضح ہوگی۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے دستبردارنہیں ہوسکتا، بھارت کو جلد احساس ہوجائے گا کہ اپنی شرائط پر کشمیرکے مسئلے کو نظرانداز کرکے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے غیرمشروط مذاکرات چاہتا ہے،حریت رہنماؤں کی گرفتاری و نظر بندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیرکا ہے۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ ہمیشہ بھارت کی طرف سے مذاکرات کیلئے شرائط عائد کی جاتی رہی ہیں ، پاکستان نے مذاکرات کیلئے کوئی نئی شرط عائد نہیں کی۔

انہوں نے پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کھٹائی میں پڑنے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کے اس رویے کا نوٹس لے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ثبوت اقوام متحدہ کودیئے ہیں۔ اس موقع پر سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے، دو ماہ میں100 سے زائد بار بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔