قومی سلامتی مشیروں کے مجوزہ مذاکرات بھارت کی عائد کی گئی پیشگی شرائط کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے ،پاکستان

بھارتی وزیر خارجہ نے یکطرفہ طور پر مذاکرات کے ایجنڈے کو دو آئٹمز تک محدود کر دیا، ایسے مذاکرات بے مقصد ہونگے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا بڑا مقصد کشیدگیوں کو کم کرنا اور حالات معمول پر لانے کے پہلے قدم کے طور پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے، قومی سلامتی مشیروں کے مذاکرات کا واحد مقصد دہشتگردی پر بات کرنا ہے تو امن کے امکانات کے فروغ کی بجائے اس سے الزام تراشی میں اضافہ،اور ماحول مزید کشیدہ ہو گا،دفتر خارجہ کا بھارتی وزیر سشما سوراج کی پریس کانفرنس کے بعد باضابطہ بیان جاری

ہفتہ 22 اگست 2015 22:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 اگست۔2015ء ) پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قومی سلامتی مشیروں کے مجوزہ مذاکرات بھارت کی جانب سے عائد کی گئی پیشگی شرائط کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے ،بھارتی وزیر خارجہ نے یکطرفہ طور پر مذاکرات کے ایجنڈے کو دو آئٹمز تک محدود کر دیا ان دو شرائط کی بنیاد پر مذاکرات بے مقصد ہونگے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی نوعیت کے مذاکرات کا بڑا مقصد کشیدگیوں کو کم کرنا اور حالات معمول پر لانے کے پہلے قدم کے طور پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے،اگر قومی سلامتی مشیروں کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات کا واحد مقصد دہشتگردی پر بات کرنا ہے تو امن کے امکانات کے فروغ کی بجائے اس سے الزام تراشی میں اضافہ ہو گا اور ماحول مزید کشیدہ ہو گا۔

ہفتہ کی شب دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان نے بھارتی وزیر برائے امور خارجہ سشما سوراج کی پریس کانفرنس کا محتاط انداز میں جائزہ لیا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قومی سلامتی مشیروں کی سطح پر مجوزہ مذاکرات بھارتی وزیر خارجہ کی دو شرائط کی بنیاد پر کئے گئے تو بے مقصد ہونگے ۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن یقینی بنانے کیلئے مذاکرات کے پائیدار عمل کے ذریعے تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کی ضرورت ہے جن کا آغاز 1998 ء میں جامع مذاکرات کی صورت میں ہوااور بعد ازاں 2011 میں انہیں بحال شدہ مذاکرات کا نام دیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی وزیر نے یکطرفہ طور پر مذاکرات کے ایجنڈے کو دو آئٹمز تک محدود کر دیا جس میں دہشتگردی سے آزاد ماحول کا قیام اور لائن آف کنٹرول پر امن شامل ہیں ۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ دہشتگردی کے متعدد واقعات ان کا ابتدائی طور پر بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا تھا بالآخر جعلی ثابت ہوئے اس لئے یہ بات قابل عمل نہیں کہ بھارت مذاکراتی عمل کو ایک یا دو من گھڑت واقعات کی بنیاد پر موخر کر دے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی برقرار رہنے دے ۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا یہاں اس امر کی یاد دہانی یکساں اہمیت کی حامی ہے کہ دہشتگردی 8 نکاتی جامع مذاکرات میں ہمیشہ شامل رہی ہے اور یہ دونوں ممالک کے داخلہ سیکرٹریوں کی بات چیت میں زیر غور لائی جاتی رہی ہے ۔ بھارت کیلئے یہ مناسب نہیں کہ یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ کرے کہ دیگر امور اس وقت زیر غور لائے جائینگے جب دہشتگردی کے معاملے پر بات ہو جائے اور اسکا خاتمہ کر دیا جائے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی نوعیت کے مذاکرات کا بڑا مقصد کشیدگیوں کو کم کرنا اور حالات معمول پر لانے کے پہلے قدم کے طور پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے اگر قومی سلامتی مشیروں کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات کا واحد مقصد دہشتگردی پر بات کرنا ہے تو امن کے امکانات کے فروغ کی بجائے اس سے الزام تراشی میں اضافہ ہو گا اور ماحول مزید کشیدہ ہو گا ۔

ترجمان نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے تجویز پیش کی تھی کہ دہشتگردی سے متعلقہ امور کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کو دیگر امور پر بھی بات کرنی چاہئے اور اگر ممکن ہو تو کشمیر ، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام تصفیہ طلب امور زیر غور لانے کیلئے ایک ٹائم شیڈول اوفا اعلامیہ کی روشنی میں طے کیا جائے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے امکانات کے فروغ کا یہی واحد راستہ ہے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی وزیر سشما سوراج کی طرف سے اوفا اعلامیہ کے دیباچے اور عامل پیرا گراف میں امتیاز برتنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں بعد میں ایسا موقف اختیارکرنے کا خیال آیا ہے ۔

ان کا یہ موقف کشیدگی میں کمی اور اعتماد کو فروغ دینے کے مقصد کے حصول کیلئے نقصان دہ ہے حریت رہنماؤں سے مجوزہ ملاقات کے حوالے سے دوسری شرط عائد کرنے سے متعلق ترجمان نے کہا کہ یہ بات اس بات کی متعدد بار نشاندہی کی گئی ہے کہ جب بھی پاکستانی قیادت نے گزشتہ 20 سال کے دوران بھارت کا دورہ کیا تو یہ ایک روایت رہی ہے کہ وہ حریت رہنماؤں سے ملاقات کرتے رہے ہیں ۔ بھارت کیلئے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ وہ اس دیرینہ روایت کو تبدیل کرنے کیلئے شرائط مسلط کرے ۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس بنا پر پاکستان اس موقف کا اعادہ کرتا ہے کہ قومی سلامتی مشیروں کے مجوزہ مذاکرات بھارت کی جانب سے عائد کی گئی پیشگی شرائط کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے۔