زرعی اور معاشی بڑھوتی کے لیے تحقیق اور ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہیں سکندر حیات بوسن

پیر 24 اگست 2015 15:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 اگست۔2015ء) ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور معاشی ترقی کے لیے زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایا کاری کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں خوراک کی کمی سے بچنے کے لئے زرعی تحقیق و ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت زرعی شعبے کو منافع بخش بنانے کے لئے بھر پور کوششیں کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر برائے قومی تحفظِ خوراک و تحقیق ، جناب سکندر حیات بوسن نے دو روزہ ایگریکلچر لنکیچج پروگرام (اے آئی پی) کے تحت ہونے والی کانفرنس کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران کیا۔

اس کانفرنس کا انعقاد مکئی اور گندم کے فروغ کے لئے قائم کئے گئے ادارے سمٹ نے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) اور یو ایس ایڈ کے تعاون سے کیا ہے۔

(جاری ہے)

سکندر حیات خان بوسن نے اس بات پر زور دیا کہ دنیاوی ٹینکنالوجیز ملک میں کسان کی موجودہ صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے بہت ضروری ہے اسکے علاوہ ملک میں زراعت کی بڑھوتی کے لیے پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کو تعاون کرنا چاہیے جسکا بھر پور فائدہ عام کسان کو حاصل ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلیاں فوڈ سیکورٹی کے لیے ایک خطرہ ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے بہتر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تا کہ مستقبل میں مسائل سے مقابلہ کر سکیں۔ حکومت زرعی سیکٹر کو منافع بخش بنانے کے لیے بھر پور کوششیں کر رہی ہے جس سے ملک میں فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے پاکستا ن میں زرعی سیکٹر کی بہتری کے لیے امریکہ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا اور انہوں نے کہا کہ AIP پروگرام نے ملک میں فروٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے۔

انہوں نے کسانوں کو کہا کہ AIP کے براجیکٹ میں مداخلت کریں اور ان کی ٹیکنالوجی کو اپنی فصلوں کی بڑھوتی کے لیے استعمال کریں۔ CIMMYT کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارٹن کراف نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ خوراک کی پیداوار کو بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو اس ضمن میں موسمیاتی تبدیلیوں ، درجہ حرارت ، اور پانی کی کمی جیسی مشکلات در پیش ہیں۔

اسلیے ہم کو چاہیے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنائیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے زیادہ خوراک پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زنک کی خاصی تعداد کی حامل گندم کی ورائٹی کو متعارف کروانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مشن ڈائریکٹر USAID پاکستان ، جان گروارک نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان پچھلے 50 سالوں سے پاکستان میں زراعت کے سیکٹر کی بڑھوتی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1960 میں جب پاکستان کو خوراک کے میدان میں مشکلات کا سامنا تھا تو ڈاکٹر نارمن بورلاگ نے میکسی پاک گندم کی ورائٹی متعارف کروائی جس سے پاکستا ن میں گرین ریولیو شن آیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے تعاون سے AIP پروگرام پاکستان میں خوراک کی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے بنایا گیاہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کونسل کے ممبر نیچرل ریسورسز ، ڈاکٹر ندیم امجد نے چئیرمین پی اے آر سی، ڈاکٹر افتخار احمد کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں حکومت سے زرعی سیکٹر کو ترقی دینے کے لیے کہا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ بہتر پالیسی سے پاکستان کی معیشت کو بڑھوت دینے میں بہت مدد ملے گی۔ اس موقع پر ڈاکٹر امتیاز احمد، CIMMYT نے AIP پراجیکٹ پر تفصیلی بریفنگ دی اور ان کا زرعی سیکٹر پر اثر بتایا۔ اسکے بعد وفاقی وزیر نے نئے اور پرانے CIMMYT کے ڈائریکٹر جنرلز کو زرعی شعبہ کی بڑھوتی میں اپنا اعلی کردار ادار کرنے کے لیے شیلڈز پیش کیں۔