ضابطہ اخلاق سے الیکٹرانک میڈیا کو سٹریم لائن کرنے میں مدد ملے گی

ٹیلی ویژن چینلز کے شفاف اور اطمینان بخش کام کیلئے فریم ورک ضروری ہے، ماہرین

بدھ 26 اگست 2015 21:18

اسلام آباد ۔ 26 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 اگست۔2015ء) پاکستان میں ایک دہائی سے زائد عرصہ کے دوران الیکٹرانک میڈیا نے بلندیوں کی نئی سطح کو چھو لیا لیکن اس کے باوجود اس کیلئے ضابطہ اخلاق کی کمی محسوس کی گئی تاہم موجودہ حکومتی کوششوں سے کوڈ آف کنڈیکٹ کے نفاذ سے یہ کمی محسوس کر دی گئی، ماہرین نے الیکٹرانک میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کو مثبت اشارہ قرار دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے اس سے الیکٹرانک میڈیا کو سٹریم لائن کرنے میں مدد ملے گی، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ٹیلی ویژن چینلز کے شفاف اور اطمینان بخش کام کیلئے ایک فریم ورک ضروری ہے اور یہ قانونی، سیاسی اور سماجی حلقوں کا مطالبہ بھی تھا۔

اس خلاء کو پر کرنے کیلئے منتخب حکومت نے سخت محنت اور پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کیساتھ مشاورت کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے، وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی جو کوڈ آف کنڈیکٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے نے 24نکاتی میڈیا ریگولیٹری کوڈ وضع کیے جس کے بعد وزارت اطلاعات و نشریات نے پمرا رولز 2009ء میں ترامیم کیلئے ضابطہ اخلاق 2015ء جاری کر دیا۔

(جاری ہے)

اس ضابطہ اخلاق کے تحت الیکٹرانک میڈیا کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے پروگرامز میں نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد کو نشر نہ کرنے کو یقینی بنائیں۔ ضابطہ اخلاق کو الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ میں سنگ میل قرار دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے اس سلسلے میں پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے کردارکوسراہا۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ضابطہ اخلاق کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی کیونکہ اسے پی بی اے نے بھی منظور کیا ہے۔

اتفاق رائے کے باوجود اگر اس سلسلے میں کچھ تحفظات ہوں تو حکومت کھلے دل کے ساتھ اس پر بات چیت کیلئے تیار ہے۔ معروف انگریزی اخبار ”ڈان“ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ضابطہ اخلاق تمام اہم تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ یہ بعض غیر اہم موضوعات مثلاً ایڈورٹائزنگ کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ضابطہ اخلاق میں ایسے سیکشن موجود ہیں جس کے تحت چھوٹے بچوں کے علاوہ ایسے لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے گا جن کے خلاف الزامات لگائے گئے ہوں۔

الیکٹرانک میڈیا پر تجزیوں کی بھرمار کے باعث عوام کی جانب سے مسلسل شکایات آ رہی ہیں، حتیٰ کہ سماجی گروپ بھی یہ شکایتیں کر رہے ہیں کہ تجزیہ کاروں کیلئے حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے تا کہ غلط تجزیات سے عوام کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا جا سکے بلکہ درپیش سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر قومی مفاد کو یقینی بنایا جا سکے۔