پاکستان بھر کے میڈیکل کالجوں میں طلبہ کے مقابلے کی تعداد میں مسلسل اضافہ،لڑکیوں کی تعداد70فیصد تک پہنچ گئی

جمعرات 27 اگست 2015 11:21

پاکستان بھر کے میڈیکل کالجوں میں طلبہ کے مقابلے کی تعداد میں مسلسل ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27 اگست۔2015ء) پاکستان بھر کے میڈیکل کالجوں میں طلبہ کے مقابلے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پی ایم ڈی سی کا کہنا ہے کہ اب یہ تعداد 70فیصد تک پہنچ چکی ہے تاہم ڈاکٹر بننے کے بعد ان کی اکثریت عملی طو رپر کام شروع نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں میں خواتین کی تعداد صرف 23فیصد ہے،شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کے مقابلے نہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف زیادہ متوجہ ہیں تاہم ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے کیریئر سے زیادہ شوہر کی تلاش میں ہوتی ہیں۔

اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں قائم میڈکل کالج میں بھی زیرتعلیم طلبہ وطالبات میں 17 لڑکیاں ہیں اور صرف تین لڑکے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں۔ایک کالج کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے کالج میں 100 نشستوں کے لیے دس ہزار درخواستیں آتی ہیں۔ بعض کالج میں داخلے کے لیے 90 فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔میں نے ایک مرد طالبِ علم سے پوچھا کہ خواتین کیسے ان سے زیادہ نمبر لے لیتی ہیں۔

وہ میڈکل کے پانچویں سال میں ہیں اور کان، ناک اور گلے کی بیماریوں کے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ لڑکے باہر جاتے ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ لڑکیاں گھر بیٹھتی اور رٹا لگاتی ہیں۔یعنی خواتین طلبا کی کامیابی کی وجہ ان کی اپنی محنت نہیں ہے،

بلکہ معاشرتی تقاضوں کے باعث ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لڑکیوں کی اکثریت تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار ہی نہیں کرتیں۔

پی ایم ڈی سی کے پاس اندراج شدہ ڈاکٹروں کی فہرست میں صرف 23 فیصد خواتین ہیں۔شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کے مقابلے نہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف زیادہ متوجہ ہیں بلکہ وہ کام کو بھی اتنی ہی توجہ دیتی ہیں۔ تاہم ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے کیریئر سے زیادہ شوہر کے تلاش میں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایابہت سے مرد اور خواتین ڈاکٹر یہ بات شاید کھل کر نہیں بتاتے کہ ایک میڈکل ڈگری اچھے رشتے کے لییگارنٹی ہے۔

اس بات کی تصدیق کے لیے میں نے عائیشہ میرج بیورو چلانے والے جوڑے، کامران احمد اور وجیہہ کامران سے ملاقات کی۔ کامران نے مجھے بتایا کہ آدھے گاہک وہ والدین ہیں جو ڈاکٹر بہو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔اصل میں جب آپ اپنی بہو یا بیوی کا تعارف ڈاکٹر کے طور پر کرتے ہیں تو آپ کی جاننے والوں میں عزت بڑھ جاتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر لڑکی دیکھنے میں ذرا سی بھی خوب صورت ہو اور اس کی بول چال اچھی ہو تو اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔

لیکن ایک ڈاکٹر بیوی صرف نمائش کے لیے نہیں ہے، ہسپتالوں میں خواتین ڈاکروں کی غیر موجودگی پاکستان کے صحتِ عامہ کے نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔

ایک طرف سرکاری میڈکل کالج میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو حکومت کی جانب سے ان کی فیس میں 35 لاکھ روپے کی رعایت ملتی ہے تو دوسری جانب ملک میں ڈاکٹروں کی بھی کمی ہے، خاص کر دیہاتی علاقوں میں جہاں خواتین صرف خواتین ڈاکٹروں سے ہی علاج کروانا پسند کرتی ہیں۔ڈاکٹر شائستہ فیصل پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ہیں اور ان کی تحقیق کو بنیاد بنا کر کونسل نے فیصلہ کیا کہ داخلوں میں مرد اور خواتین کی تعداد برابر رکھنی چاہیے لیکن جب پی ایم ڈی سی کا یہ فیصلہ گذشتہ سال عام ہوا، تو اس پر بہت تنقید بھی ہوئی۔

پی ایم ڈی سی اصرار کرتا ہے کہ اس مسلے کا یہی بہترین حل ہے۔ ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ہے کہ یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کے وکیل شہزاد اکبر کا موقف مختلف ہے۔ اس کوٹے سے پی ایم ڈی سی لڑکیوں کوذہین ہونے پر سزا دے رہا ہے۔شہزاد اکبر نے اس کوٹے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کے خلاف ایک اور پٹیشن دائر ہوئی ہے۔شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ یہ قدم غیر آئینی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پیشہ نہ چھوڑیں۔

کالم نگار فسی زکا کا بھی خیال ہے کہ حکومت اس کو داخلوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگانی چاہیے جو پیشہ چھوڑ رہے ہیں۔ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین سال تک کام کرنے پر پابند کیا جانا چاہیے یا پھر وہ حکومت کو ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی سرکاری رقم واپس دیں۔میڈکل کالج میں دو خواتین نے مجھے یقین دلایا کہ وہ ڈاکٹری نہیں چھوڑیں گی۔

تاہم، جب میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان پر اپنے خاندان یا کریئر کے درمیان چناوٴ کرنے کے لیے مجبور کیا جائے، تو وہ کیا چنیں گی؟بیس سالہ ایلیا خاور نے کہامیں انھیں منانے کی کوشش کروں گی لیکن اگر وہ نہیں مانے تو خاندان کو منتخب کروں گی۔ان کی ساتھی منزا مقصود نے جواب دیا۔میں بھی خاندان کو ہی چنوں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان ہی اولین ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوان :