عبد الحفیظ پیر زادہ کا انتقال ‘ آئینی و انتظامی قوانین کا منجھا ہوا وکیل اور اپنے دور کا ایک بااثر سیاستداں رخصت ہوا ‘غیر ملکی میڈیا

بدھ 2 ستمبر 2015 14:41

اسلام آباد/لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء)غیر ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عبدا لحفیظ پیرزادہ ( 24 فروری1935 تا یکم ستمبر 2015 ) کے انتقال سے پاکستان میں آئینی و انتظامی قوانین کا ایک منجھا ہوا وکیل اور اپنے دور کا ایک بااثر سیاستداں رخصت ہوا۔سندھ کے ضلع سکھر سے تعلق رکھنے والے حفیظ پیرزادہ شائد پیدا ہی وکالت کے لیے ہوئے تھے ۔

پیرزادہ واحد پاکستانی خاندان ہے جس کی چار نسلیں بیرسٹر ہیں۔ حفیظ پیرزادہ کے دادا 1892 میں ، والد 1930 میں ، خود حفیظ 1957 میں اور ان کے صاحبزادے عبدالستار پیرزادہ نے 2000 میں بیرسٹری کا گاوٴن پہنا ( عبدالحفیظ کے بھائی مجیب پیرزادہ نے بھی وکالت ہی اختیار کی )۔ عبدالحفیظ کے والد پیرزادہ عبدالستار پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیرِ خوراک و زراعت و صحت تھے۔

(جاری ہے)

1953 میں وہ سال بھر کے لیے سندھ کے وزیراعلی بھی رہے۔بیرسٹر حفیظ پیرزادہ نے1957 میں ذوالفقار علی بھٹو کے چیمبر سے ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ میں لیگل پریکٹس شروع کی ۔1959 میں انھوں نے حفیظ پیرزادہ لا ایسوسی ایٹس کے نام سے علیحدہ فرم تشکیل دی اور 1962 میں سپریم کورٹ میں وکالت کے اہل ہوئے۔حفیظ پیرزادہ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ہونے والے اس تاسیسی کنونشن میں بھی شامل تھے جہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔

سن 1970 میں انھوں نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے قومی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔جب انتخابات کے بعد بھٹو مجیب مذاکرات کے کئی لاحاصل ادوار ہوئے تو ان میں پیرزادہ بھی شامل تھے۔دسمبر 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا تو پہلی کابینہ میں حفیظ پیرزادہ کو تعلیم اور ثقافت کا قلمدان دیا گیا۔

اس لحاظ سے وہ پاکستان کے پہلے وزیرِ ثقافت تھے۔چند ماہ بعد پیرزادہ کو قانون اور پارلیمانی امور کی وزارت سونپی گئی اور قومی اسمبلی کی آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے ۔ پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں پر مشتمل اس کمیٹی نے 1973 کا تاریخ ساز آئین مرتب کیا۔ پیرزادہ نے ہی آئین کا مسودہ متفقہ منظوری کیلئے پارلیمان میں پیش کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اس کارنامے سے اتنے خوش تھے کہ آئین کے نفاذ کے بعد ایک بھری پریس کانفرنس میں حفیظ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ تو میرا سوہنا منڈا ہے۔1973 کے آئین کے تحت بین الصوبائی رابطہ کی وزارت پہلی بار قائم ہوئی اور پیرزادہ کو اس کا قلم دان سونپا گیا۔

مارچ 1977 کے متنازعہ انتخابات میں حفیظ پیرزادہ دوسری اور آخری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر جون میں بطور وزیرِ خزانہ بھٹو حکومت کا آخری بجٹ بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔

نو ستاروں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائینز اور بھٹو حکومت کے درمیان نئے انتخابات کرانے کے معاملے پر اپریل تا جون تھکا دینے والے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں پی این اے کی جانب سے مولانا مفتی محمود ، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد جبکہ پیپلز پارٹی کی سہہ رکنی مذاکراتی ٹیم میں بھٹو صاحب کے علاوہ مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ شامل تھے۔

جب دو جولائی کو سمجھوتہ ہوا تو اس کا حتمی مسودہ پروفیسر غفور اور حفیظ پیرزادہ نے ہی تیار کیا تھا ۔( یکم ستمبر 2015کو اس باب کا آخری کردار بھی انتقال کرگیا )۔پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے حکومت کا تختہ الٹا تو پی این اے کے رہنماوٴں کے ساتھ ساتھ بھٹو سمیت پوری کابینہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ کچھ دنوں میں سب رہا ہوگئے۔البتہ ستمبر میں ضیا حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کی اور بھٹو صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن اور حفیظ پیرزادہ کو بھی گرفتار کرلیا ۔

مبشر اور پیرزادہ تو چند ماہ بعد رہا ہوگئے البتہ بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان کے مقدمے میں گانٹھ لیا گیا۔بھٹو صاحب کی لیگل ٹیم میں حفیظ پیرزادہ بھی شامل تھے۔جب فروری 1979 میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تو اس دن پیرزادہ ہی کورٹ روم میں تھے ۔بیگم بھٹو حراست میں تھیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اپیل مسترد ہونے کے بعد پیرزادہ نے اپنے طور پر ضیا الحق کو رحم کی درخواست بھجوائی جس کے بارے میں چیف مارشل لا سیکریٹریٹ نے دعوی کیا کہ یہ موصول ہی نہیں ہوئی۔ اس دعوی کے بعد پیرزادہ نے بیگم بھٹو سے کہا کہ اب مجھے پکا یقین ہوگیا ہے کہ ضیا ہر قیمت پر پھانسی دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔1982 میں ضیا حکومت نے پیرزادہ سمیت پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں کو حراست میں لیا اور پھر رہا کردیا۔

حفیظ پیرزادہ برطانیہ چلے گئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ وہاں سرحد ، بلوچستان اور سندھ کے کچھ سرکردہ جلا وطن قوم پرست رہنماوٴں کے ساتھ مل کر سندھی ، بلوچ ، پشتون فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا نظریہ یہ تھا کہ وفاقی نظام ناکام ہوچکا ہے اور اب اگر کوئی نظام ملک بچا سکتا ہے تو وہ کنفیڈرل نظام ہے۔گویا پیرزادہ نے بدلے حالات میں اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے آئین پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔

جونیجو دورِ حکومت میں پیرزادہ وطن واپس آگئے اور پھر خود کو تاحیات لیگل پریکٹس کے لیے وقف کردیا۔بطور پروفیشنل وکیل انھوں نے نوے کے عشرے میں آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی طرف سے کرپشن کے مقدمات میں وکالت کی۔ اسٹیل مل نجکاری کیس میں وہ شوکت عزیز حکومت کے وکیل رہے۔ این آر او کے خلاف مقدمے میں وہ مشرف حکومت کے خلاف میاں شہباز شریف اور ڈاکٹر مبشر حسن کے وکیل رہے۔

جب مشرف پر پیرزادہ کے بنائے ہوئے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ قائم ہوا تو وہ مشرف کے قانونی مشیر ہوگئے اور جب 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی چھان بین کیلئے نواز شریف حکومت نے چند ماہ پہلے جوڈیشل کمیشن بنایا تو پیرزادہ نے تحریکِ انصاف کی جانب سے کمیشن کے سامنے دلائل دئیے۔80 سالہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے لگ بھگ باون برس کورٹ روم میں گذارے اور یکم ستمبر دو ہزار پندرہ کو آخری جج کے روبرو پیش ہونے کے لیے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔