پاکستان سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب

پاکستانی عوام کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل غیر ملکی امداد نہیں، بھیک مانگنے والی اقوام کبھی ترقی نہیںکر سکتیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 8 ستمبر 2015 13:24

پاکستان سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے  ڈاکٹر امجد ..

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 08 ستمبر 2015 ء) :پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر جو افراد غربت کے خاتمے کی مؤثر کوششیں کر رہے ہیں، ان میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ پاکستان کے شہر فیصل آباد کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد سول سروس میں جانے کا فیصلہ کیا اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے ایک اچھے افسر کے طور پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کو منوایا۔

سرکاری ملازمت کے دوران انہیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل مینجر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب ڈاکٹر امجد کو غربت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی غربت کے خاتمے کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

یہی نہیں ، انہوں نے غیر سرکاری فلاحی تنظیم اخوت کی بنیاد رکھی اور سرکاری ملازمت سے استعفٰی دے دیا۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے دس ہزار روپے کے معمولی سرمائے سے غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز کیا۔ آج ان کا ادارہ سود کے بغیر چھوٹے قرضے دینے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ وارانہ رہنمائی کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ اخوت نادار اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے بیس سے پچاس ہزار تک کے بلا سود قرضے فراہم کرتا ہے۔

یہ قرضے بغیر کسی لمبی چوڑی تفتیش کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ درخواست اور شخصی ضمانت کے ذریعے دیے جاتے ہیں گذشتہ چودہ برسوں میں اخوت تنظیم سولہ ارب اور پچہتر کروڑ روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اخوت کے قرضوں سے اب تک ساڑھے نو لاکھ غریب خاندان مستفید ہو چکے ہیں۔ پاکستان بھر کے 250 شہروں اور قصبوں میں اخوت کی 256 شاخیں قائم کی جا چکی ہیں۔

اخوت کی خدمات کا دائرہ چاروں صوبوں کے علاوہ فاٹا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں تک پھیل چکا ہے۔اس سلسلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح تقریبا ننانوے فیصد ہے۔ اخوت کی طرف سے پینتیس فی صد قرضے خواتین کو دیے گئے ہیں اور یہ قرضے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھی حاصل کر رہے ہیں۔

اخوت کا ادارہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے گرجا گھروں میں خصوصی فلاحی تقریبات کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ اس فلاحی ادارے کو پاکستانی مخیر حضرات کی بڑی تعداد سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ادارہ کاروبار کرنے کے متمنی خواتین و حضرات کی مدد کرنے کے علاوہ گھر بنانے، بچوں کی تعلیم یا بچوں کی شادی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کے لیے قرضے حاصل کرنے کے خواہش مند نادار افراد کی بھی مدد کرتا ہے۔

اس وقت اخوت کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیر نگرانی قرضوں کی فراہمی کے کور پراجیکٹ کے علاوہ ایک درجن کے قریب دیگر فلاحی منصوبے بھی چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں اخوت کلاتھ بنک، اخوت ہیلتھ سروسز، اخوت ڈریمز پراجیکٹ، اخوت ایجوکیشن اسسٹنس پروگرام اور اخوت فری یونیورسٹی کے علاوہ یہ ادارہ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود اور ان کی دیکھ بھال کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

واشنگٹن ڈی سی کی ایک یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ میں تعلیم پانے والے ڈاکٹر امجد ثاقب چھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ پنجاب ایجوکیشنل اینڈومنٹ فنڈ کے وائس چئیرمین، پنجاب ویلفئر ٹرسٹ فار ڈس ایبلڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی ایک معروف غیر سرکاری علاج گاہ فاونٹین ہاؤس کی مینجمنٹ کمیٹی کے بھی چئیرمین ہیں۔

اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل غیر ملکی امداد سے ممکن نہیں۔ ان کے بقول بھیک مانگنے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لیے پاکستانیوں کو ہی اٹھنا ہوگا۔ غربت کے خاتمے کے لیے یہاں لوگوں کو سماجی آگاہی، کپیسٹی بلڈنگ، کاروباری تربیت اوردوسروں کی مدد کرنے والی رضاکارانہ سوچ سے مزین کرنا ہوگا۔

ان کے خیال میں اگر پچاس فیصد پاکستانی بقیہ پچاس فیصد پاکستانیوں کی مدد کا مخلصانہ تہیہ کر لیں تو لوگوں کی مشکلات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے، ’’میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی دیانتدار قوم ہے، اسی لیے تو لاکھوں لوگ چھوٹے چھوٹے قرضوں سے اپنے کاروبار سیٹ کر کے ہمیں قرضے واپس کر رہے ہیں بلکہ اخوت کے ڈونر بن رہے ہیں۔‘‘ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اخوت کا ماڈل روایتی اقتصادی تصورات کے ذریعے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان کے بقول سودی قرضوں کی معیشت مسابقت، منافع کے لالچ اور مارکیٹ فورسز کے تحت کام کرتی ہے جبکہ وہ ایثار، قربانی اور دوسروں کی مدد کر کے ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :