عاقب نے بتایا تھا کہ وقار نے خراب بولنگ کیلئے جیپ بطور تحفہ لی ، سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود

منگل 8 ستمبر 2015 14:36

عاقب نے بتایا تھا کہ وقار نے خراب بولنگ کیلئے جیپ بطور تحفہ لی ، سابق ..

لاہور (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار8ستمبر ۔2015ء ) لاکھوں شائقین کرکٹ کے ہیروز اور ماضی کے عظیم کھلاڑی دولت کی خاطر جس طرح ملک کی عزت اور وقار کا سودا کرتے رہے ہیں یہ سیاہ باب کرکٹ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ قومی کرکٹ ٹیم کے موجودہ ہیڈ کوچ وقار یونس کے بارے میں انکے ساتھی اور اماراتی ٹیم کے کوچ عاقب جاوید نے جسٹس قیوم کمیشن کو بتایا تھا کہ وقار یونس نے میچ میں خراب بولنگ کرنے کیلئے پجیرو جیپ کا تحفہ لیا تھا۔

وقار یونس جسٹس قیوم کمیشن کی تحقیقات منظر عام کے دس سال بعد سپاٹ فکسنگ کیس میں سلمان بٹ، عامر اور آصف کیخلاف گواہ بن گئے ۔ 1999ء کے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں پاکستان ٹیم کی حیران کن اور نا قابل یقین شکست کے سولہ سال بعد اس وقت کے چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے انکشاف کیا ہے کہ ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم کی بنگلہ دیش سےناقابل یقین شکست دیکھ کر لگ رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

(جاری ہے)

خالد محمود کے مطابق جسٹس قیوم کے سامنے سابق انٹرنیشنل کرکٹر سلیم پرویز نے سابق لیگ سپنر مشتاق احمد کو نوٹوں سے بھرا بریف کیس دینے کا انکشاف بھی کیا تھا ۔ خالد محمود نے کہا کہ ورلڈ کپ سے پہلے جاوید میانداد کو کوچ کے عہدے سے اسلئے برطرف کرکے مشتاق محمد کو کوچ بنایا گیا کیوں کہ میانداد کا کہنا تھا کہ کئی لڑکے جان کر خراب کھیل رہے ہیں ۔

خالد محمود کے مطابق عطا الرحمن نے بتایا تھا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں وسیم اکرم نے پیسے لینے کیلیے خراب بولنگ کیلیے کہا تھا ۔ وقار یونس کے خلاف عاقب جاوید نے کمیشن میں بیان دیا تھا کہ ایک میچ میں خراب بولنگ کرنے پر اسے پیجیروجیپ رشوت کے طور پر دی گئی البتہ ان بیانات کسی اور ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی اس لئے پلیئرز کو شک کا فائدہ دیا گیا لیکن گواہیاں تھیں اور الزامات سنگین تھے اس لئے جسٹس قیوم نے انہیں مستقبل میں اہم ذمہ داری دینے سے روک دیا تھا۔

خالد محمود کہا کہ جاوید میاں داد نے کوچ کی حیثیت سےسلیکشن میں صوابدیدی اختیار مانگا تھا لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ تاہم خالد محمود نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا کہ کچھ کھلاڑیوں نے جاوید میاں داد کے خلاف بیٹ اٹھا لئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1997ء میں زمبابوے کے لاہور ٹیسٹ سے قبل عامر سہیل اور سینئر کھلاڑیوں نے ایک دوسرے پر میچ فکسنگ کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے تھے ۔

انہوں نے قذافی سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کی تین گھنٹے کی گفتگو سنی ۔ آدھی رات کو عامر سہیل ہوٹل چھوڑ کر گھر چلے گئے اور معین خان کو کپتانی کے لئے تیار کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سلیم ملک دوستوں میں آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے میچ فکسنگ کرکے غلطی کی ۔ اس موقع پر نجی ٹی وی سے گفتگو میں جسٹس (ر) ملک محمد قیوم نے کہا کہ تحقیقات کے دوران ایک موقع پرمشتاق احمد کیخلاف گھیرا تنگ ہورہا تھا لیکن بعد میں نامکمل شواہد کے باعث وہ تاحیات پابندی سے بچ گئے ۔

انہوں نے کہا کہ انکی سفارشات کو نظر انداز کرکے وقار یونس کو قومی کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ اور مشتاق احمد کو سپن بولنگ کوچ بنایا گیا ۔ جسٹس قیوم کے مطابق مجیب الرحمن نے سب سے پہلے انکی سفارش کو نظر انداز کیا اور وسیم اکرم کو دوبارہ کپتان مقرر کردیا ۔ اگر انکی رپورٹ پر من و عن عمل درآمد کیا جاتا تو اس کے مثبت اثرات سامنے آتے ۔ جسٹس قیوم نے کہا کہ انہوں نے 53لوگوں کے بیانات ریکارڈ کئے۔

ان میں دو چار کے علاوہ سب نے کہا کہ میچ فکسنگ ہوتی ہے۔ ان میں منیجر اور کھلاڑی بھی شامل تھے۔ البتہ سابق منیجر یاور سعید نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خالد محمود کو ہٹاکر بچگانہ ذہن والے مجیب الرحمن کو بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ہمارے فیصلوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناسور آج بھی پاکستان کرکٹ میں موجود ہے۔ ملک قیوم نے کہا کہ سلمان بٹ،محمد آصف اور محمد عامر اپنی سزائیں پوری کرچکے ہیں۔ انہیں کھیلنے دیں لیکن ان کے عمل کو مانیٹر کیا جائے ۔