سیاسی اور عسکری قیادت کا اسلام کے نام پر اﷲ کی زمین پر فساد پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ

دہشت گردی والے علاقوں میں آپریشن میں وسعت لائی جائے گی،افغان مہاجرین بڑا مسئلہ ہیں، آپریشن میں فوج نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ دیئے ،دہشت گردوں اور ان کے معاونین کا گٹھ جوڑ توڑنا ہو گا، وزیر خزانہ کے ساتھ مل کر اس بارے حکمت عملی مرتب کریں گے ، مدار س مقررہ وقت تک اپنی رجسٹریشن کرالیں ، کسی کو بلاجواز مدارس پر چڑھ دوڑنے کی اجازت نہیں دینگے ،حکومت پر تنقید کے ٹھیکدار پاکستان کو پھیلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے میڈیا پر حملے خوفزدہ کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں ، پرانے اسلحہ لائسنس تجدید نہ ہونے پرمنسوخ کر دیئے جائیں گے، آئندہ لائسنس کمپیوٹرائزڈ ہوں گے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کی وزیراعظم کی زیر صدرات نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کا جائزہ لینے سے متعلق اجلاس کے بعد میڈیا کوبریفنگ

جمعرات 10 ستمبر 2015 20:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 ستمبر۔2015ء) سیاسی اور عسکری قیادت نے اسلام کے نام پر اﷲ کی زمین پر فساد پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ریاست کو چیلنج کرنے والوں کو ریاست کی طاقت سے کچل دیا جائے گا ، جن علاقوں میں دہشت گردی ہے وہاں پر آپریشن میں وسعت لائی جائے گی، ان علاقوں میں مقیم افغان مہاجرین بڑا مسئلہ ہیں، افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا،پہلے بھی فوجی آپریشن ہوا، اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کا پھیلنا بدترین دور تھا، اب آپریشن ہوا تو فوج نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ دیئے ،، بعض لوگوں نے حکومت پر تنقید کا ٹھیکہ لے رکھاہے ،وہ پاکستان کو پھیلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے،جب تک وزیر داخلہ ہوں اگر کوئی چاہتاہے کہ ہم مدرسوں پر چڑھ دوڑینگے تو یہ ممکن نہیں ہوگا ، میڈیا پر حملے خوفزدہ کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں، اگر ہم خوفزدہ ہوں گے تو یہ ان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے مترادف ہو گا،میڈیا لوگوں کو بتائے کہ دہشت گرد اسلام کی مرمت نہیں کر رہے، نقصان پہنچا رہے ہیں، پرانے اسلحہ لائسنس کی تجدید نہ کرائی گئی توان لوگوں کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں گے، آئندہ لائسنس کمپیوٹرائزڈ ہوں گے۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو یہاں وزیراعظم کی زیر صدرات نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کا جائزہ لینے سے متعلق ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں بارے میڈیا کوبریفنگ دے رہے تھے۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، وزیراعظم آزاد کشمیر ، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ، گورنر خیبرپختونخوا ، انٹیلی جنس سربراہان اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی ۔

پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پہلا دور 2گھنٹوں پر محیط تھا جس میں تمام گورنر، وزیراعلیٰ اور اعلیٰ افسران بھی موجود ھتے، پھر حتمی اجلاس ہوا، جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف نے کی، اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے، اجلاس میں نے بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں جن پر وفاق اور صوبوں کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے، اس میں این جی او اور انٹرنیشنل این جی او پر بات کی گئی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ این جی اوز کو جتی آزادی پچھلے 10،12سالوں میں دی گئی پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دی گئی ، بغیر کسی تحقیق کے انکو ویزے جاری کئے گئے ،انٹر نیشنل این جی اوز نے بغیر کسی لائسنس کے پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کئے اور بغیر کسی مانیٹر نگ کے اپنا کام جاری رکھا۔انہوں نے کہا کہ آج ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے کافی بات چیت ہوئی ہے اور ہم نے انٹر نیشنل اور نیشنل این جی اوز کے کام کر نے اور لائسنس کے حوالے سے باقاعدہ پالیسی تیار کرلی ہے ،آئندہ ایک ،دو ہفتوں میں صوبوں کے ساتھ مشاورت مکمل کر نے کے بعد اس پالیسی کا اطلاق کیا جائے گا،چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام این جی اوز ایک سسٹم اور قانون کے تحت کام کریں اور ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ان کو فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے اور وہ ان فنڈز کو کہاں خر چ کر رہے ہیں، اس وقت بہت سی ایسی این جی اوز ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے، انہیں بلا اجازت کام کرنے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اب وفاقی حکومت نیشنل این جی اوز کے فنانشل کلیئرنس اور ڈیٹا کے حوالے صوبوں کی مدد کرے گی تا کہ سب کو معلوم ہو کہ کون کیا کر رہا ہے، صوبوں نے اس پر اتفاق کیا ہے، اس پر آئندہ ہفتے اجلاس ہو گا، جس میں صوبوں کی جانب سے ہوم سیکر ٹریز اور وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی سیکر ٹری داخلہ شامل ہوں گے، اس کا مطلب کسی کو کام سے روکنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد ہے کہ تمام این جی اوز کوپاکستان کے قانون کے اندر رہ کر کام کرنے کا پابند بنایا جا سکے۔

۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں ایسے لوگوں کو اسلحہ لائسنس اور شناختی کارڈز دئے گئے جن کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں تھا اور نادرا کے پاس انکا کوئی ریکارڈ ہی نہیں تھا ، اب ہم نے پرانے لائسنس ریونیو کرنے 31دسمبر تک کا وقت دیا ہے، مقررہ تاریخ تک اسلحہ ریونیو نہ کروا نے والوں کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا اور آئندہ لائسنس کمپیوٹرائزڈ ہوں گے، اس پرنادرا کا پنجاب اور سندھ کے ساتھ ماہدہ چل رہا ہے ،اور کوشش ہے کہ باقی صوبوں کے ساتھ بھی ماہدہ ہو جائے ،چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ آج ہونے والے اجلاس میں تمام سیکیورٹی کمپنیاں صرف نام کی ہیں یہ ایک کاروبار بن گیا ہے، ان کے پاس سیکیورٹی بھی نہیں ہے، ان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ چلتے ہی نہیں، کچھ لوگ ہیں وہ ہتھیار چلا نہیں سکتے انہیں ہتھیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے، سیکیورٹی گارڈ کی کوئی ہیلتھ انشورنس نہیں ہے، اگر خدانخواستہ کوئی مارا جاتا ہے تو اس کیلئے کوئی مراعات نہیں، سیکیورٹی کمپنی اپنے کلائنٹس سے 15ہزار لیتی ہے تو سیکیورٹی گارڈ کو صرف 6 ہزار روپے دیتی ہے، اب سیکیورٹی گارڈز کی انشورنس پر بھی مکمل اتفاق ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی کمپنیز کے ملازمین کو باقاعدہ ٹریننگ دینے کا پر وگرام بنایا ہے اور اس حوالے سے صوبوں سے تعاون مانگا ہے،چوہدری نثا ر نے کہا کہ ملک بھر میں جعلی بلٹ پروفنگ ہو رہی ہے،پر ائیو یٹ طر یقے سے بلٹ پر وفنگ کر وانا اپنے اپ سے زیادتی ہے اسلئے حکومت نے جعلی بلٹ پروفنگ کر نے والی کمپنیز کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں وفاق صوبائی قیادت سمیت اور عسکری قیادت بھی موجود تھی، اس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام کے نام پر اﷲ کی زمین پر فساد پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ریاست کو چیلنج کرنے والوں کو ریاست کی طاقت سے کچل دیا جائے گا، ایکشن پلان پر فیصلہ کیا گیا کہ جن علاقوں میں دہشت گردی ہے وہاں پر آپریشن میں وسعت لائی جائے گی کیونکہ ان علاقوں میں افغان مہاجرین رہتے ہیں جو بڑا مسئلہ ہے، یہ مسئلہ جب تک افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوتے تب تک حل نہیں ہو سکتا، اگر ان لوگوں کو واپس بھیجتے ہیں تو اس پر بھی ایکشن آتا ہے، ابھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے حکومت پر تنقید کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور پاکستان کو پھیلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ملٹری آپریشن پہلے بھی ہوا تھا ،اور پاک افواج نے سوات سمیت دیگر علاقو ں کو دہشت گردی سے پاک کر دیا تھا،مگر اس وقت کی حکومت کی مناسب پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جو دہشت گردی پھیلی وہ پاکستان کا بدترین دور تھا، اب جب آپریشن ہوا تو فوج نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ دیئے ،اب کئی مہینوں تک امن رہتا ہے،11ہزار انٹیلی جنس بیسز پر آپریشن ہوئے ہیں، جس میں ہزاروں لوگ پکڑے گئے، ابھی تک دہشت گرد مکمل ختم نہیں ہوئے، اس لئے دہشت گردی کی جنگ ابھی تک جاری ہے، میڈیا پر حملے خوفزدہ کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں، اگر ہم خوفزدہ ہوں گے تو یہ ان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے مترادف ہو گا، پوائنٹ سکورنگ کیلئے مایوسی پھیلانے سے گریز کیا جائے، انشاء اﷲ دہشت گردوں کا مکمل قلع قمع کیا جائے گا، وہ دن دور نہیں جب پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کر دیا جائے گا، مدرسہ اصلاحات کے تحت مدارس انتظامیہ سے مشاورت کے ساتھ رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنایا جائے گا، مدارس کے نصاب کو قومی نصاب کے مطابق کیا جائے گا، میڈیا کو چاہیے کہ دہشت گردوں کے حوالے سے قومی موقف کو اجاگر کرے اور لوگوں کو بتائے کہ دہشت گرد اسلام کی مرمت نہیں کر رہے، نقصان پہنچا رہے ہیں،، سائبر کرائم کا کام سست روی کا شکار ہے، اس کو مزید تیز رفتار کیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ جون میں حکومت نے مدارس کو رجسٹریشن کیلئے 6ماہ کا وقت دیا تھا جو رجسٹرڈ نہیں کرائے گئے، ان کو کام کی اجازت نہیں ہو گی، انہوں نے کہا کہ میں جب تک وزیر داخلہ ہوں اگر کوئی چاہتاہے کہ ہم مدرسوں پر چڑھ دوڑینگے تو یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ جب مدارس کے ذمہ دار تعاون کررہے ہیں تو پھر مدارس ک پر چڑھائی کیوں کی جائے ۔ وہ مکمل تعاون کے لئے تیار ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ میڈیا سمیت اہم شخصیات کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں، صوبوں کے ساتھ مل کر اس کا ایس او پی تیار کریں گے، لاکھوں افغان مہاجرین کیمپوں سے باہر آ کر عام آبادی میں چلے آتے ہیں یہ گزشتہ دو تین حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے ہوا، اب ان 20,15 لاکھ افغانیوں کو دوبارہ کیمپوں میں بھیجنا آسان کام نہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کوواپس بھیجا جائے،دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنا بہت ضروری ہے، دہشت گردوں اور ان کے معاونین کا گٹھ جوڑ توڑنا ہو گا، میں اور وزیر خزانہ مل کر اس بارے میں ایک حکمت عملی مرتب کریں گے، یہ مشکل کام ہے، مغرب میں بھی فنڈنگ روکنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، نیکٹا پر پیش رفت کیلئے کام جاری ہے، حکومت نے فنڈنگ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پی ایس کے کام کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔