مرکزی اور صوبائی حکومتیں نان ایشوز میں پھنسی ہوئی ہیں ،ہر پاکستانی کے ہاتھ میں ووٹ کی طاقت ہے، حکمرانوں کے سیکیورٹی حصار اور وی آئی پی کلچر کی وجہ سے عام آدمی ان تک پہنچنے سے قاصر ہے، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے

امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی میڈیا سے گفتگو

جمعرات 10 ستمبر 2015 21:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 ستمبر۔2015ء) امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں نان ایشوز میں پھنسی ہوئی ہیں ،ہر پاکستانی کے ہاتھ میں ووٹ کی طاقت ہے، جس سے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں اور اپنی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں۔ جمعرا ت کو جماعت اسلامی کے مرکزی میڈیا سیل کے مطابق سراج الحق سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے شہری اور دُور اُفتادہ علاقوں کا دورہ مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ خصوصی نشست کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہر وقت ملک سے فرار کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطرہ ہے کہ کہیں یہی نوجوان اُن سازشی عناصر کے ہتھے نہ چڑھ جائیں جو انہیں کسی بھی ملک دشمن مقصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے سیکیورٹی حصار اور وی آئی پی کلچر کی وجہ سے عام آدمی ان تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ نہ تو غریبوں کی آواز سنتا ہے اور نہ ہی اُن کے پاؤں کی آہٹ، یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے غریبوں کے اندر شدید اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پیسے کا جھکاؤ محض چند جیبوں کی طرف ہو تو ایک ایسا انقلاب جنم لیتا ہے کہ پھر اشرافیہ کو کہیں چھپنے کی بھی جگہ نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ کرپٹ اشرافیہ کے ایک ایک، دو دو ارب بیرونی بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں اور غریب غربت کی چکی میں پستا چلا جارہا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیو ں کا شکوہ ہے کہ ان کی کمائی سے چند خاندانوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ا ور بالخصوص سودی نظام کی وجہ سے ہمارا معاشرہ واضح طور پر دو طبقات میں تقسیم ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ وہاں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی ہے اور بہت سارے نوجوان ایسے ہیں جو سکولز چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔

یہ لوگ ریاست کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ظلم اور ظالم کے خلاف ہیں۔ انہیں بٹھاکر ان کی بات کو سنا جائے، حل نکل آئے گا۔ یہی صورتِ حال اندرونِ سندھ قوم پرستوں کی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سندھی قوم پرست ہوں یا بلوچستان کے علیحدگی پسند، یہ سب محب وطن ہیں، لیکن مسلسل محرومی اور طبقاتی نظام کی خرابیوں نے انہیں مزاحمت پر مجبور کردیا ہے۔ پاک۔چائنہ کوریڈور کے حوالے سے بلوچستان کے عوام کے تحفظات پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ خوشحال پاکستان کا منصوبہ ہے، اور اسے ہر حال میں مکمل ہونا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں قانون سازی کرکے مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

روٹ کے تنازعہ کو بھی حل کیا جائے۔ سراج الحق نے کہا کہ ملک میں کرپشن کی جڑیں پھیل گئی ہیں۔ پرائیویٹائزیشن مسائل کا حل نہیں۔ ہم قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف ہیں۔ ہم کسی صورت مزدوروں، غریبوں کا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی بجائے حکومت اپنی مس منیجمنٹ پر توجہ دے۔ کسی بھی جگہ کرپٹ افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں نیب نے کچھ بڑے بڑے کرپٹ لوگوں کے ساتھ پلی بارگین کرکے بھاری رقوم معاف کروائیں۔ نیب کو یہ اختیار کس نے دیا؟ کرپشن کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہو۔ سراج الحق نے الیکشن کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ممبران کے خلاف ڈسکشن جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن اور سارے انتخابی نظام کی اصلاح ہونی چاہیے۔

77ء کا مارشل لاء اس لیے آیا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم رائٹ اور رانگ کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم سب کو مل کر ملک کے اندر مسلکی اختلافات کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے بنیادی چیز نظامِ تعلیم کی اصلاح ہے۔ اس لیے پہلی جماعت سے لیکر میٹرک تک ملک بھر میں سب کے لیے یکساں نصاب رائج کیا جائے، جو امیر و غریب سب کے لیے ہو۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا tenureپورا کرنا چاہیے، اور سب کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق موقع ملنا چاہیے۔ 06 ستمبر یومِ دفاع کے موقع پر پاکستان کا جو موقف سامنے آیا وہ جرأتمندانہ اور پوری قوم کی ترجمانی کا عکاس تھا۔ مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے بھی اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ علی گیلانی کی قیادت میں انشاء اﷲ تحریک آزادیٔ کشمیر ضرور کامیاب ہوگی اور جلد کشمیریوں کو حق خود ارادیت حاصل ہوگا۔

سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن بھارت کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔ فوج کی طرف سے آنے والا کوئی بھی موقف دراصل حکومت ہی کا موقف ہے۔ فوج اور سول حکومت کی تقسیم کی سوچ مناسب نہیں۔ قتل و غارت گری میں جو بھی ملوث ہو اُسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، تاہم ایم کیو ایم کے سیاسی لوگوں کو بلا ثبوت دہشت گرد قرار نہیں دینا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :