'سعودی عرب میں شامی تارکین وطن کی تعداد 25 لاکھ'

شامی شہریوں کے ساتھ پناہ گزینوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 12 ستمبر 2015 10:51

'سعودی عرب میں شامی تارکین وطن کی تعداد 25 لاکھ'

سعودی عرب (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 12 ستمبر 2015ء): سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ ریاض حکومت شام مصیبت زدگان کے حوالے سے کی جانے والی امدادی مساعی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ رہی ہے۔ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کوپناہ نہیں دے رہا ہے بلکہ۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک 25 لاکھ شامی شہریوں کو سعودی عرب میں پناہ دی گئی ہے۔


العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شام سے آنے والے بے سہارا شہریوں کے ساتھ دینی اور انسانی بنیادوں پر برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے شامی شہریوں کے لیے پناہ گزین یا مہاجرین کی اصطلاح بھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی انہیں پناہ گزینوں کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اب چونکہ ذرائع ابلاغ میں سعودہ عرب پر شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنے کے باربار بھونڈے الزامات عاید کیے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شام میں عوامی انقلاب کی تحریک کے سب سے پر زور حامی سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

اس لیے اب یہ بتانا ضروری ہوچکا ہے کہ سعودی عرب پچھلے چار سال کے دوران پچیس لاکھ شامی شہریوں کا استقبال کرچکا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد پہلے مرحلے میں شہریوں نے سعودی عرب کی طرف نقل مکانی شروع کی تھی۔ غیر علانیہ طورپر سعودی عرب میں اب تک پچیس لاکھ کے قریب شامی شہری پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے انہیں فوج کی نگرانی میں قائم کیمپوں یا پناہ گزینوں کے مراکز میں نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء کے بعد سعودی عرب نے شام سے آنے والے طلباء وطالبات کو اپنی جامعات میں تعلیم کے حصول کا بھی مفت حق دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تین سال کے عرصے میں ایک لاکھ شامی طلباء سعودی عرب کی جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔ ان طلباء کو سعودی عرب کے مقامی شہریوں کی طرح صحت، تعلیم اور دیگر سماجی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔سعودی عرب میں آنے والی شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری کیساتھ ساتھ ریاض حکومت نے شام کے اندر پھنسے شہریوں، لبنان اور اردن سمیت یورپی ملکوں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی بھی ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔

سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ نقد امداد فراہم کرتا ہے۔ اکتیس مارچ 2015ء کو کویت میں منعقدہ تیسری بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے شامی شہریوں کی بحالی اور آباد کاری کے لیے 700 ملین ڈالر کی رقم دی جا چکی ہے۔حکومتی ذرائع نے ذرائع ابلاغ میں آنے والے الزامات اور گمرام کن پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ جتنی مدد سعودی عرب کی جانب سے شامی شہریوں کے لیے کی گئی ہے کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔

اس لیے یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے منع کررہا ہے۔ سعودی عرب اڑھائی ملین سے زائد شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں ہر قسم کی شہری سہولیات دیے ہوئے ہے۔
یہ امرقابل ذکر رہے کہ ان دنوں جب شامی پناہ گزینوں کے یورپی ملکوں کی طرف جانے کی خبریں سامنے آئیں تو ذرائع ابلاغ میں خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں پر کڑی تنقید کی گئی اور کہ یہ کہا گیا کہ خلیجی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرکھے ہیں۔ جس کے باعث لاکھوں افراد یورپ کی طرف پناہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئی ہیں۔