فیفا ڈویلپمنٹ آفیسر بھارتی ہونے کے باعث ویزہ نہ ملنے پر پاکستان کا دورہ نہ کرسکے

ہفتہ 12 ستمبر 2015 11:53

فیفا ڈویلپمنٹ آفیسر بھارتی ہونے کے باعث ویزہ نہ ملنے پر پاکستان کا ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 ستمبر۔2015ء)فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے تعاون سے پاکستان میں بننے والے گول پراجیکٹ کی تعمیر کا جائزہ لینے والے ڈویلپمنٹ آفیسر کا تعلق بھارت سے ہونے اور ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ آج تک پاکستان کا دورہ نہیں کر پائے ہیں۔پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے قائم مقام جنرل سیکریٹری کرنل (ریٹائرڈ) فراست علی شاہ نے کہا ہے کہ ’اس وقت فیفا کے جنوب مشرقی ایشیا کے لیے ڈویلپمنٹ آفیسر شجی پرابھاکرن ہیں اور ان کا تعلق بھارت سے ہے۔

ویزہ نہ ملنے کی وجہ وہ پاکستان آکرگول پراجیکٹ کا جائزہ نہیں لے پائے ہیں۔‘یاد رہے کہ فیفا کے جنوب مشرقی ایشیا کے لیے ڈویلپمنٹ آفیسر شجی پرابھاکرن کی تقرری اکتوبر 2011 میں ہوئی تھی۔قائم مقام جنرل سیکریٹری کے مطابق ’یہ پراجیکٹس پاکستان میں تعمیر تو ہو رہے ہیں لیکن فیفا نے کبھی ان کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی آج تک پوچھا ہے۔

(جاری ہے)

جب ڈیولیپمینٹ آفیسر کبھی آیا نہیں، اس پراجیکٹ کو دیکھا نہیں تو تمام پراجیکٹس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

‘ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ڈیویلپمنٹ آفیسر کے عہدے پر منی لال فرنینڈو کام کر رہے تھے جن کا تعلق سری لنکا سے تھا۔خیال رہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم کے حوالے سے حال ہی میں بدعنوانی کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کے بعد فیفا کے صدر سیپ بلیٹر کی جانب سے پاکستان کوگول پراجیکٹ کے نام پر دیے جانے والے فنڈز کے بارے میں بھی متضاد خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔

فراست علی شاہ نے اس پراجیکٹ کے بارے میں بتایا کہ سنہ 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلے کے بعد فیفا نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اس پراجیکٹ کے تحت فٹبال سٹیڈیم تعمیر کروانے کا کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’ابتدائی طور پر متاثرہ علاقوں میں دو سٹیڈیم تعمیر کیے جانے تھے اور ہر پراجیکٹ کے لیے فیفا نے پانچ لاکھ ڈالر کا فنڈ دینے کا کہا تھا۔

‘اس وقت پی ایف ایف کے صدر مخدوم فیصل صالح حیات کو حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ان پراجیکٹس کے لیے کہیں بھی جگہ نہ ملی جس کے بعد 2005 میں ایک پراجیکٹ پشاور اور دوسرا کراچی میں شروع کیا گیا۔ پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد ان پراجیکٹس میں اضافہ کر دیا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’پشاور میں شروع ہونے والے پراجیکٹ کی صرف عمارت 2010 میں مکمل کر لی گئی تھی جبکہ اس میں گراوٴنڈ، پانی، بجلی وغیرہ کی سہولیات نہیں تھیں۔

‘اس کے علاوہ کراچی میں بننے والے گول پراجیکٹ کا حال بھی ان کے بقول کچھ ایسا ہی ہے جہاں سوائے عمارت کے اور کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔دوسری جانب پی ایف ایف میں اختلافات کے باعث بننے والے دو دھڑوں کی وجہ سے گول پراجیکٹ کے حوالے سے ملنے والی معلومات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔پی ایف ایف کے مخدوم فیصل صالح حیات گروپ کے جنرل سیکریٹری لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) احمد یار خان اس بات پر تو فراست علی شاہ کے ساتھ متفق نظر آتے ہیں کہ اس پراجیکٹ کے لیے مختص فنڈ کا تعلق پی ایف ایف کے ساتھ نہیں ہے۔

ان کے مطابق فیفا کی طرف سے اس پراجیکٹ کے پیسے تعمیر کرنے والے ٹھیکے دار کے اکاوٴنٹ میں ٹرانسفر کیے جاتے تھے۔احمد یار خان نے بتایا کہ ’گول پراجیکٹ کے تحت کراچی، پشاور، لاہور، جیکب آباد، کوئٹہ، ایبٹ آباد، سکھر اور خانیوال میں تعمیرات کی جانی تھیں۔‘ان کے مطابق پشاور میں تعمیر کیے جانے والے سٹیڈیم کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد روک دیا گیا تھا اور اس کا ٹھیکے دار بھی چیزیں وغیرہ اتار کر واپس چلا گیا۔

‘احمد یار خان کا کہنا تھا کہ ’کراچی اور لاہور کے پراجیکٹ بالکل مکمل ہیں وہاں 100 بچوں کے رہنے کی جگہ بھی ہے لیکن صرف وہاں بجلی اور پانی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے راوٴنڈ نہیں بن سکا ہے۔‘دوسری جانب فراست علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’لاہور میں گول پراجیکٹ کے تحت صرف دفاتر بنائے گئے ہیں جبکہ وہاں کسی گراوٴنڈ کا منصوبہ ہے ہی نہیں۔‘فیفا نے ایک بڑی رقم دے کر پراجیکٹس کا آغاز تو کروا دیا لیکن عدم توجہ اور لاپرواہی کی وجہ سے آج تک یہ تمام پراجیکٹس مکمل نہ ہو سکے ہیں۔ جس کے باعث پاکستان میں فٹبال کھیلنے والے تمام نوجوانوں کھلاڑیوں اور فٹبال کھیلنے کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔