وہسکی، کلبس، میوزک:بند دروازوں کے پیچھے کراچی کی شبینہ تفریحات

Faizan Hashmi فیضان ہاشمی ہفتہ 12 ستمبر 2015 17:07

وہسکی، کلبس، میوزک:بند دروازوں کے پیچھے کراچی کی شبینہ تفریحات

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12ستمبر2015ء) کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور متنوع قسم کا شہر ہے۔کبھی یہاں کے نائٹ کلبوں میں آزادانہ الکوحل کا استعمال کیا جاتا تھا، جاز میوزک کے بڑے نام ، مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کے ہجوم کے سامنے،اپنے فن کا مظاہرہ کرتےتھے۔ آج کی نئی نسل بھی اپنے باپ دادا کی پارٹیوں کی روایت کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے مگر بند دروازوں کے پیچھے۔

2 کروڑ آبادی کے شہر، جو خراب سیاسی ماحول، گینگ وار اور قبضے کی لڑائیوں کے لیے مشہور ہے،میں شہر کے لگژری ہوٹل میں آدھی رات کے بعد شروع ہونے والی پارٹی کا منظر اس طرح ہوتا ہے کہ فانوسوں سے سجے کمرے میں کئی سو افراد اپنی پریشانیوں کو بھول کر محظوظ ہو رہے ہیں ۔تیز موسیقی کی آواز آ رہی ہے۔ بار مصروف ہے۔

(جاری ہے)

ایک نوجوان لڑکی ڈی جے موسیقی کو کنٹرول کر رہی ہے۔

سوٹ اور ٹائی میں ملبوس حضرات موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تمباکو نوشی کر رہے ہیں اور خواتین بے ہودہ لباسوں میں ڈانس فلور کے گرد جمع ہیں۔ ان پارٹیوں میں شرکت کرنے والوں میں زیادہ تعداد اُن لوگوں کی ہے جو پاکستان واپسی سے پہلے بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہوئے یا دوران سفر وہاں کی آزادی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ان پارٹیوں کی تشہیر بالکل بھی نہیں کی جاتی۔

گھر کے پاس گلی میں سے گذرتے ہوئے بالکل پتہ نہیں چلتا ہے کہ اندر پارٹی ہو رہی ہے۔ ایسا خود کش حملہ آوروں اور انتہا پسند علماء سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ 70 کی دہائی کے آخر میں مذہبی بنیاد پرستی بڑھنے سے پہلے پاکستان میں شبینہ تفریحات (نائٹ لائف) کو بام عروج حاصل تھا۔شبینہ تفریحات کا سنہرا دور 50 کی دہائی سے شروع ہوا اور 1977 میں پابندی لگنے تک قائم رہا۔

اس کے بعد بننے والی پالیسیوں نے معاشرے کا رخ موڑ دیا۔ اس سے پہلے شہر میں قائم بارز میں الکوحل کھلے عام استعمال کی جاتی تھی۔ امریکن جاز موسیقار ڈیزی گیلیسپائی اور ڈیوک ایلنگٹن بڑے بڑے جم غفیر کے آگے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ۔کراچی کے بڑے کلبس جیسے پلے بوائے، ایکسیلسیر، اوسس، سامر، کلب 007 سب کی کوشش ہوتی کہ کراچی کے نوجوان ان کے یہاں جمع ہوں۔

میٹروپول ہوٹل کے منیجر امتیاز مغل نے بتایا کہ ہمارے یہاں بینڈز، ڈرنکس اور ڈانسنگ کے ساتھ اچھی شبینہ تفریحات ہوتی تھی لیکن اب وہ سب ختم ہوگیا۔میٹروپول ہوٹل کبھی شہر میں شبینہ تفریحات کا مرکز ہوا کرتا تھا، آجکل کافی حد تک متروک ہو چکا ہے اورتزین و آرائش کا منتظر ہے۔ کراچی کے عروج کے دنوں میں سیاستدان، نوجوان، بیلے ڈانسر، غیر ملکی سفارت کار، غیرملکی ائیر لائنز کا کیبن کریو، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے آرکسٹرا اور اُن کے موسیقارسب ہی کراچی کی شبینہ تفریحات میں شامل ہوتے اور لطف اٹھاتے تھے۔

1970 سے 1975 تک ، لمبے بالوں اور بڑے سن گلاسز کے لیے مشہور،لیون مينيزس کا بینڈ دی ان کراؤڈ کراچی کا سب سے مقبول بینڈ تھا۔ اس گروپ نے 1972 میں صدر ذوالفقار علی بھٹو ، جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے والد تھے، کے صدر بننے کے موقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ بڑے بھٹو صاحب بھی اکثر کراچی کی شبینہ تفریحات کے لیے مشہور مقامات پر باقاعدگی سے جانے اور وہسکی سے شغل فرمانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

مينيزس کراچی بزنس سکول میں پڑھاتا ہے۔ مينيزس 1972 کی صدارتی تقریب کو تاریخ کا شاندار حصہ سمجھتا ہے۔اس نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ہم دوپہر میں اسی مکان میں گھوم رہے تھے جہاں بھٹو صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔میں نے ہاتھ میں ایمپلی فائر اور گٹار پکڑا ہوا تھا۔ اور میں نے کہا گڈ آفٹر نون سر۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا گڈ آفٹر نون۔ میں نے کہا سر کیا وہاں ڈانس ہوگا؟انہوں نے کہا میں نہیں جانتا، لیکن اگر ہوا تو خود کو چھپانا مت۔

پانچ سال کے بعد بھٹو نے اسلام پسندوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ میں آ کر الکحل پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد اُن کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور اسلام پسند صدرجنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت اقتدار میں آ گئی۔ ہوٹل میٹروپول کے مالک نے بتایا کہ ضیاء کے آنے کے بعد پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری مکمل طور پر بدل گئی۔کراچی کی ساری تفریح، سارا مزہ اور لوگ جو کچھ کر رہے تھے، سب بدل گیا ۔

پابندی نائٹ کلبوں کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوئی مگر اس سے شبینہ تفریحات کی پیاس کو ختم نہ کیا جا سکا۔ آج کل زیادہ پارٹیاں ذاتی گھروں کی اونچی دیواروں اور بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہیں۔شراب کی دوکانیں ،جنہیں زیادہ تر عیسائی چلاتے ہیں ، وہی مقامی افراد کو الکوحل فراہم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ امیرلوگوں کے گھر میں اعلیٰ درجے کی شراب بھی مہیا کر دی جاتی ہے۔

پائلٹ عقیل اختر مخصوص لوگوں کے لیے اپنے گھر کو ، مہینے میں دو بار کلب میں بدل دیتا ہے،جہاں لوگ پنک فلوئیڈ، دی رولنگ سٹون کے ساتھ جدید میوزک سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ ذاتی جگہ ہوتی ہے، اس لیے ہم فیس بک یا کسی شوشل میڈیا پر کچھ نہیں ڈال سکتے۔ہم کسی بھی قسم کی تشہیر نہیں کرتے۔ یہ بس دوستوں کے بیچ ہی ہے۔کبھی کبھار وہ دوستوں کو خوش کرنے کے لیے الیکٹرک گٹار بھی بجاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :