آئین کے تحت کسی بھی ادارے کو حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں ؛چیف جسٹس انور ظہیر جمالی

پیر 14 ستمبر 2015 16:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 ستمبر۔2015ء)چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کواپنی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں ہے ،ملک کی بدلتی ہوئی معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورتحال میں سپریم کورٹ کا کردار عوام کے لیے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے، عوام کی نظریں معمول کے مقدمات کے تصفیے کے علاوہ دیگر سیاسی اور معاشرتی امور کے حل کے سلسلے میں بھی سپریم کورٹ پر مرکوز رہیں،بینچ اور بار کی مثال ایک چکی کے دو پاٹوں کی سی ہے، جب تک دونوں مل کر اور ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی سے کام نہ کریں ، فراہمی انصاف کا مقدس فریضہ درست طور پر سرانجام دینا ممکن نہیں ہوگا،حصولِ انصاف کو درپیش مشکلات میں مقدمات کے فیصلہ میں ہونے والی تاخیر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے جس سے غریب اور نادار طبقے پر انتہائی بُرا اثر پڑتا ہے،ہم فوری و سستے انصاف کی فراہمی غیر جانبدارانہ فیصلے، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے اور اس سلسلے میں عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے،آئینِ پاکستان اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکمِ کُل ہے اور پاکستان کی جمہور کو تفویض کردہ اقتدار و اختیار اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، جو ایک مقدس امانت ہے۔

(جاری ہے)

نئے عدالتی سال کی ابتدا ء کے موقع پرپیر کو تقریب سے خطاب کرتیہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت زیرِالتوادرخواستوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے خود احتسابی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید متحرک کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہو ں گا کہ خوداحتسابی کا یہ عمل یکطرفہ نہیں ہونا چاہے بلکہ دو طرفہ ہونا چاہیے یعنی بار کونسلز کی طر ف سے بھی اپنی ڈسپلنری کمیٹیوں کومتحرک کیا جا نا چاہیے اور کسی بھی شکایت کی صورت میں حقیقت پسندانہ طریقے سے قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کرکے اُس کا ازالہ کیا جا نا چاہیے،گزشتہ سال ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد تقریباً 24ہزار کے لگ بھگ تھی۔

ستمبر 2014ء سے اگست 2015 کے دوران 17ہزار کے لگ بھگ نئے مقدمات دائر کیے گئے اور تقریباً 6سو کے قریب مقدمات کو بحال کیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران 15ہزار سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح ستمبر 2015 میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد کم و بیش 26ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ ہیومن رائٹس سیل نے عوامی شکایات کے ازالے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔

اس شعبہ میں زیرِالتوا شکایات کی تعداد 12305تھی۔گزشتہ سال کے دوران کل26731شکایات موصول ہوئیں 28034 شکایات کونمٹادیاگیا۔ان میں سے زیادہ تر پولیس، انتظامیہ اور ارباب اقتدار کی مبینہ زیادتیوں، عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن وغیرہ سے متعلق تھیں۔اس طرح زیرِ التوا درخواستوں کی تعداد کم ہو کر 11002 رہ گئی ۔

بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا تھا جس میں گزشتہ سال 2055شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1394کو نبٹایا گیااور زیرِ التوا درخواستوں کی تعداد 661رہ گئی۔ اس طرح عوام کی کثیر تعداد نے ان شعبہ جات سے استفادہ حاصل کیا۔ ہم فوری اور سستے انصاف کی فراہمی غیر جانبدارانہ فیصلے، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے اور اس سلسلے میں عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

آئینِ پاکستان اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکمِ کُل ہے اور پاکستان کی جمہور کو تفویض کردہ اقتدار و اختیار اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، جو ایک مقدس امانت ہے ۔یہ کہ ملک میں ایسا جمہوری ڈھانچہ قائم کیا جائے جس میں ریاست کا نظامِ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایاجائے۔

اسلامی تشریح کے مطابق جمہوریت، آزادی، برابری، رواداری اور معاشرتی عدل کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔ جس میں بنیادی حقوق بشمول حیثیت، مواقع اور قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور سوچ ، اظہار، عقیدہ، دین، عبادت اور اجتماع کی آزادی، قانون اور اخلاقیات کی حدودکے اندر رہتے ہوئے ،ہو۔ عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میں آئینی اور قانونی حدود کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسا حکم جاری کرے جس سے صرف اور صرف غیر قانونی اقدامات کی تصحیح ہو اور ساتھ ہی ساتھ اداروں کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو اور ریاست کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں مدد ملے۔

نئے عدالتی سال تقریب کا آغاز پاکستان میں پہلی بار 1979ء میں ہوا۔ مگر بعد ازاں اس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ نہ ہوسکا البتہ 2004ء سے لے کر اب تک یہ تقریب باقاعدگی سے منعقد ہو رہی ہے۔یقیناً ہم سب نظامِ انصاف کی کارکردگی میں بہتری کے خواہاں ہیں۔ ایسی تقاریب میں بینچ و بارکو آپس میں مل کر بیٹھنے اور باہم رابطہ و تبادلہ خیال کا موقع ملتا ہے۔

جس کے ذریعے فراہمی انصاف میں آنے والی رکاوٹوں اور مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس عمل کا براہ راست اثر عوام اور خاص طور پر فریقین مقدمہ اور وکلاء پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں موجودہ عدالتی چھٹیوں کا نظام تقسیم پاک وہندسے قبل سے چلا آرہا ہے۔ ان تعطیلات کا مقصد یہ ہے کہ جج صاحبان کو مسلسل عدالتی امور انجام دینے کے بعد کچھ وقفہ فراہم کیا جائے جس میں تھوڑا آرام کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی کتب کا مطالعہ کر پائیں جس سے ان کے علم اور قانون فہمی میں مزید اضافہ ہو۔

مگر یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اگرچہ ہر سال قواعد کے مطابق گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس دوران عدالتیں مکمل طور پر بند رہتی ہیں۔ درحقیقت چھٹیوں کے دوران عدالت ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوتی ۔ماضی کی طرح اس سال بھی زیر التواء مقدمات کی تعداد کو دیکھتے ہوئے زیادہ تر جج صاحبان نے چھٹیوں کے دوران تسلسل کے ساتھ کام کیا۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی برانچ رجسٹریوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد میں اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے برانچوں میں بھی بینچ تشکیل دیے گئے۔ خاص طور پر لاہوراور کراچی میں مسلسل مقدمات کی سماعت کی گئی۔ اس طرح کافی تعداد میں مقدمات کے فیصلہ اور زیرالتواء مقدمات میں کمی لانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔آنے والے دنوں میں انشاء اللہ میں اور میرے برادر جج صاحبان اس بات کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ غیر ضروری التواء اور مقدمات میں تاخیر کا خاتمہ کرتے ہوئے مقدمات کا فوری اور بروقت فیصلہ کیا جائے۔

اس سلسلے میں وکلاء اور بار کے نمائندوں سے مشاورت کے بعد اس میں مزید بہتری لانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ یہاں میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ پر قابو پانا تنہا بینچ کے لیے ممکن نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں بار کی مکمل حمایت اور تعاون اشد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وکلاء پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ فریق مقدمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے موٴکل کے حقوق کے محافظ ہوتے ہیں تو دوسری طرف بطور افسرِ عدالت اُن پر جلد اور فوری انصاف کی فراہمی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ ہر مقدمہ میں مکمل تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں تاکہ وہ احسن طریقے سے عدالت کی معاونت کریں اور مقدمات غیر ضروری التواء کا شکار نہ ہوں۔گزشتہ سال ہم سب کے لیے منفرد اور غیر معمولی سال تھا۔ ملک کی بدلتی ہوئی معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورتحال میں سپریم کورٹ کا کردار عوام کے لیے بہت اہمیت کا حامل رہا۔ عوام کی نظریں معمول کے مقدمات کے تصفیے کے علاوہ دیگر سیاسی اور معاشرتی امور کے حل کے سلسلے میں بھی سپریم کورٹ پر مرکوز رہیں۔

عدالت نے اس سلسلے میں عوا م کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے فیصلوں کے ذریعے آئین کی تشریح کرتے ہوئے نئے مفہوم پیش کیے۔ اس سلسلے میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کا کیس آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ اس فیصلے میں نہ صرف یہ کہ موجودہ ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عوامی بہبود میں بہترفیصلہ سنایا گیا بلکہ پارلیمان کی حدود اور عدالتی اختیار کی بھی وضاحت کی گئی۔

اسی طرح الیکشن2013ء تحقیقاتی کمیشن نے بھی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے آئین اور قانون کے تحت اپنی سفارشات جاری کیں۔ مجھے یقین ہے کہ گزشتہ سال میں جاری کیے گئے عدالتی فیصلے آنے والے وقتوں میں بہت سی معاشرتی خرابیوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گے۔یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام جج صاحبان نے زیر التواء مقدمات کی تعداد میں کمی لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

یہاں تک کہ انہوں نے چھٹیوں کے دوران بھی کام کرنے کو ترجیح دی اور نہایت تندہی سے اپنا کام سرانجام دیا۔ اگرچہ ہم 15ہزار سے زائد مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئے مگر کچھ نامسائد حالات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ نہ ہو سکا۔ان میں ایک وجہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والا دھرنا تھاجس کی وجہ سے کئی ماہ تک وکلاء اور سائلین کو عدالت میں حاضر ہونے میں دشواری پیش آئی اور مقدمات غیر ضروری طور پر التواء کا شکار ہوتے رہے۔

اس اضافہ کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ عوامی اہمیت کا حامل ہونے کی وجہ سے آئینی ترامیم کے مقدمہ میں فل کورٹ تشکیل دی گئی جسے کئی ماہ تک اس مقدمہ کی بحث سننا پڑی اور اس دوران دیگر عام مقدمات کی سماعت پر بہت اثر پڑا۔ اس کے علاوہ انتخابات 2013تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل بھی اس کی وجوہات میں شامل ہے کیونکہ ایک بینچ مسلسل کئی ماہ تک ان تحقیقات میں مصروف رہا اور دیگر عام مقدمات کی سماعت نہ کر سکا۔

اگر یہ تمام عوامل درپیش نہ ہوتے تو یقینا زیر التواء مقدمات کی تعداد میں خاطرخواہ کمی واقع ہوتی۔ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت زیرِالتوادرخواستوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے خود احتسابی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید متحرک کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہو ں گا کہ خوداحتسابی کا یہ عمل یکطرفہ نہیں ہونا چاہے بلکہ دو طرفہ ہونا چاہیے یعنی بار کونسلز کی طر ف سے بھی اپنی ڈسپلنری کمیٹیوں کومتحرک کیا جا نا چاہیے اور کسی بھی شکایت کی صورت میں حقیقت پسندانہ طریقے سے قانون کے مطابق تادیبی کاروائی کرکے اُس کا ازالہ کیا جا نا چاہیے ۔

جب کہ اس و قت صو ر ت حا ل یہ ہے کہ شاذونادر ہی کسی معاملے میں کاروائی ہوتی نظر آتی ہے ۔حالانکہ ایک بڑی تعداد میں ایسی درخواستیں زیرِالتوا ہیں ۔گزشتہ سال کے دوران دو انتہائی قابل احترام چیف جسٹس صاحبان جناب جسٹس ناصرالملک اور جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کے علاوہ قابل احترام جج صاحب جناب جسٹس اطہر سعیداپنی مدتِ منصبی کی تکمیل کے بعد عہدہ براء ہو گئے ۔

اگرچہ آج وہ سب حضرات بینچ کا حصہ نہیں ہیں مگر ان کے فیصلے ہمیشہ ہمارے لیے مشعل راہ رہیں گے اور نہ صرف ہم بلکہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد ان سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے۔ اسی اثناء میں جسٹس مقبول باقر بطور جج سپریم کورٹ ہماری ساتھ شامل ہوئے۔تاہم اس وقت جج صاحبان کی دو عہدے خالی ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ ان کو جلداز جلد پُرکیا جائے تاکہ مقدمات کی سماعت متاثر نہ ہو۔

قوانین کی موزونیت دیکھنے اور فراہمی انصاف میں لاء اینڈ جسٹس کمیشن کا اہم کردار ہے۔ جس کہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف مروجہ قوانین کا مسلسل جائزہ لے کر انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرے بلکہ قوانین کو عوام کی آگاہی کے لیے آسان فہم بنائے۔ کمیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ نظامِ انصاف میں اصلاح اور انصاف کی فوری فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے۔

اس سلسلے میں متعلقہ قواعد میں ترمیم و اصلاح کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج صاحبان جناب جسٹس میاں شاکراللہ جان اور جناب جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو جلد ہی اپنی سفارشات کمیشن کے سامنے پیش کریں گے۔ بطور چیئرمین لاء اینڈ جسٹس کمیشن میری یہ کوشش ہو گی کہ عدالتی نظام کی اصلاح، بدعنوانی کے خاتمے اور عدلیہ کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کے عمل کو تیز کیا جائے اور بہتر نتائج حاصل کیے جائیں۔

اس دعا کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی ذمہ داریاں ایماندری، محنت اور لگن کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کو مدِنظر رکھتے ہوئے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ملک کے تمام اداروں کو استحکام نصیب فرمائے۔