بھارت کی نئی حکومت کے ترقی کے دعوؤں کے باوجود بیروزگاری عروج پرپہنچ گئی
ایک ریاست میں سرکاری قاصد کی 368 اسامیوں کے لیے تقریباً 23 لاکھ نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروادیں درخواستیں جمع کروانے والوں میں 255 امیدوار ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں جب کہ 25 ہزار کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہے اور ڈیڑھ لاکھ درخواست گزار بی اے پاس ہیں،حکام
اتوار 20 ستمبر 2015 12:45
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 ستمبر۔2015ء) بھارت کی نئی حکومت کے ترقی کے دعوؤں کے باوجود بیروزگاری سے تنگ لوگوں کی حالت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں ہفتے ہی ملک کی گنجان آباد ریاست اتر پردیش میں محض سرکاری قاصد کی 368 اسامیوں کے لیے تقریباً 23 لاکھ نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروادیں۔نائب قاصد کا عمومی طور پر کام دفتر میں فائلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور دیگر ایسے ہی ضروری کام ہوتے ہیں اور اس کے لیے معمولی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائیکل یا موٹر سائیکل چلانا کافی سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ خالی آسامیوں کے لیے درخواستیں جمع کروانے والوں میں 255 امیدوار ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں جب کہ 25 ہزار کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہے اور ڈیڑھ لاکھ درخواست گزار بی اے پاس ہیں۔
(جاری ہے)
مقامی ذرائع ابلاغ نے ایک اور سرکاری عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ ان آسامیوں کے لیے درخواست دینے والوں کا اگر انٹرویو کرنا شروع کیا جائے تو اس میں بھی چار سال لگ جائیں گے۔
نام ظاہر کیے بغیر اس عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا کہ تاہم ہم چار سال تک امیدواروں کے انٹرویوز تو نہیں کر سکتے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں درخواستوں کے جمع ہونے سے ایک طرح کی بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، ہمیں اس کے بہترین حل کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈنا ہے۔بہت سے درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمتیں بھلے وہ چھوٹے درجے کی ہی کیوں نہ ہوں، پرکشش ہوتی ہیں۔ایک امیدوار الوک چورسیا جنہوں نے الیکٹرونکس اور کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، وہ بھی ان امیدواروں میں شامل ہیں۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد بہت عرصے تک میں نوکری تلاش کرتا رہا، روزگار کے مواقع بہت ہی کم ہیں۔ میں نوکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے چین ہو گیا۔ کوئی بھی کام کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے لہذا میں نے اس نوکری کے لیے درخواست دی۔چپراسی کی نوکری کے لیے درخواست دینے والوں میں شامل دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بتایا کہ سرکاری نوکری میں ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔وویک کمار کا تعلق گورکھ پور سے ہے اور انھوں نے بھی چپراسی کی آسامی کے لیے درخواست جمع کروائی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کانپور میں جس ادارے میں ملازمت کرتا ہوں وہاں سے مجھے 75000 روپے تنخواہ ملتی ہے۔
لیکن اگر مجھے سرکاری چپراسی کی ملازمت ملتی تو میری تنخواہ 11000 روپے سے شروع ہو گی۔ لیکن میں چپراسی کے طور پر کام کرنے کو تیار ہوں۔ اس میں آپ کو یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ آپ کی سرکاری نوکری اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک آپ کوئی بڑا جرم نہ کریں۔ یہ سرکاری ملازمت کسی کی زندگی میں سکون اور استحکام لاتی ہے۔بھارت میں اس طرح چپراسی کی آسامیوں کے لیے بڑی تعداد میں درخواستیں جمع کروانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔گزشتہ ماہ ریاست چھتیس گڑھ میں بھی چپراسی کی 30 آسامیوں کے لیے 75000 درخواستیں جمع کروائی گئیں جن میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار بھی شامل تھے۔متعلقہ عنوان :
مزید بین الاقوامی خبریں
-
شدید تنقید کے بعد ملالہ یوسفزئی کا فلسطین کے حق میں بیان سامنے آگیا
-
افغانستان میں طالبان ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، امریکا
-
غزہ میں اجتماعی قبروں کی دریافت پر اقوام متحدہ کا آزاد تحقیقات کا مطالبہ
-
کیڑوں مکوڑوں والی کافی پینے سے خاتون کی جان پر بن آئی
-
برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
-
میٹا کی ایپ تھریڈز کے صارفین کی تعداد 15 کروڑ سے زائد ہوگئی
-
پرتشدد واقعے کی ویڈیو ہٹانے پرآسٹریلیا اورایکس میں شدید تنائو
-
بنگلہ دیش میں ہیٹ ویو نے تباہی مچا دی،سکولز اور مدارس بند
-
متحدہ عرب امارات، حکومت کا شدید بارش اور سیلاب سے متاثرہ گھروں کی مرمت کے لیے 544 ملین ڈالردینےکا اعلان
-
بنگلہ دیش ، شدید گرمی کے باعث ہزاروں سکول بند ، تین کروڑ تیس لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر
-
نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کو شرم آنی چاہیے، اسرائیلی قیدی کی ویڈیو جاری
-
یو اے ای میں ریکارڈ بارشیں، گھروں کی مرمت کیلئے ساڑھے 54 کروڑ ڈالر کا اعلان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.