نوازشریف صاحب۔۔۔ آنکھیں کھولیں۔۔۔ دنیا بدل گئی ہے

پیر 28 ستمبر 2015 14:11

نوازشریف صاحب۔۔۔ آنکھیں کھولیں۔۔۔ دنیا بدل گئی ہے

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28 ستمبر۔2015ء -- تجزیہ: علی چوہدری) پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دونوں اسوقت امریکہ میں موجود ہیں، گئے تو کسی اور کام سے تھے، لیکن اسوقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بھارتی وزیر اعظم مودی بنے ہوئے ہیں، جنہوں نے ایک ہی دن میں آٹھ دس ایسے کارنامے سرانجام دئیے جو شائید ہمارے وزیراعظم صاحب اگلے دس سال تک نہ دے پائیں۔

مودی جہاں بھی جاتے ہیں اپنے ہم وطنوں میں گھل مل جاتے ہیں، گذشتہ ماہ دبئی میں جس طرح انہوں نے ہزاروں لاکھوں بھارتیوں کو ایک اسٹیڈیم میں جمع کیا، اور جس طرح ان سے خطاب کیا شائید ہمارے وزیر اعظم اسکا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے، اسی طرح جو پروٹوکول اور عزت افزائی ان کو فیس بک، گوگل، فورچون فائیو ہنڈرڈ اور دیگر اداروں میں ملی وہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا اب بدل گئی ہے، اور چین کے بعد دنیا بھر نے اپنی نظریں بھارت پر مرکوز کر لی ہیں۔

(جاری ہے)


اسوقت پاکستان بھر کا آئی ٹی سیکٹر ایک عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہے، جناب وزیر اعظم آپ اسے حیرت کہیں، غصہ کہیں یا بدقسمتی۔۔ لیکن سب کے سب اسوقت ایک انجانی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری اسوقت اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن حکومت کی پیسے بنانے کی حرص نے اسے بھی دبوچ لیا ہے۔ بھارت اسوقت ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے، دنیا بھر میں اسکے چرچے ہیں، اور ہماری حکومت کی نالائقی دیکھئے کہ اسکی نظر صرف اور صرف انٹرنیٹ پر ٹیکس عائد کرنے پر مرکوز ہے۔

بجائے اس کے کہ انٹرنیٹ کو سب کیلئے عام کیا جائے، اس پر دن بدن ٹیکس لگا کر عام عوام کی پہنچ سے دور کیا جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ آئی ٹی سیکٹر جو سارے کا سارا بیرون ملک سے آئی گئی ترسیلات پر منحصر ہے پر بھی ٹیکس لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یعنی جو کروڑوں ڈالرز پاکستان آتے ہیں ان پر بھی اب نیا ٹیکس عائد کیا جائے گا، کیونکہ حکومت جانتی تک نہیں کہ آئی ٹی سیکٹر کی ترقی دراصل ملک کی ترقی ہے۔

اسکی نظر صرف پیسے بنانے پر ہے۔
جناب وزیراعظم۔۔۔ کیا آپ کبھی سوچ بھی سکتے ہیں کہ آپ فیس بک کے دفتر میں اسطرح آزادانہ ’’شیروں‘‘ کی طرح گھوم سکتے ہیں؟ مارک زکربرگ کو گلے لگا کر مل سکتے ہیں؟ عوام کا سامنا کرنے کا آپ کا حال یہ ہے کہ ’’ایک نعرے‘‘ سے بچنے کیلئے آپ عید کی نماز تک عوام کے ساتھ پڑھ نہیں سکتے! بند کمروں سے نکلیں۔

دیکھیں کیسے دنیا کے طاقتور ترین آدمی مارک زکربرگ نے اپنی پروفائل پر بھارتی پرچم لگا دیا ہے، آپ یقیناََ اس کی قدر سے ناواقف ہوں گے، اور اگلی میٹرو بس، یا لاہور گلبرگ کی سڑکوں پر پُل بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ لیکن جہاں پناہ، معاملات اب آپ کی شرمندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اگر اب جناب نے کچھ نہ کیا تو یہ نوجوان نسل جو پہلے ہی آپ کے طرز حکومت سے اُکتا چکی ہے اگلے الیکشن میں آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے گی جو آپ اسکے ساتھ کر رہے ہیں۔

آپ نے بل گیٹس کے ساتھ ملاقات فرمائی، قابل ستائش.. لیکن افسوس وہ بھی صرف پولیو کو کنٹرول کرنے کیلئے بل گیٹس کی این جی او کے حوالے سے، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس ملاقات میں بھی پولیو کے خاتمے کیلئے بل گیٹس فائونڈیشن سے مزید فنڈز لینے پر ہی زور رہا!
حکومت کی آئی ٹی اور ڈیجیٹل پالیسی نجانے کیا ہے۔ ہم اس سے ناواقف ہیں، ہماری حکومتیں شائید یہ نہیں جانتی کہ فیس بک اور گوگل کے ذریعے ماہانہ کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان آتا ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انکا پاکستان میں دفتر تو دور کی بات ایک مستقل نمائندہ تک موجود نہیں۔

دو چار نا اہل سرکاری بیوروکریٹ انتہائی فضول قسم کی کوئی پالیسی بنا کر عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ نہ کسی قسم کا کوئی مشورہ عوام سے لیا جاتا ہے، نہ آئی ٹی سیکٹر میں موجود افراد سے کسی قسم کی مشاورت کی جاتی ہے۔ اسوقت حالات یہ ہیں کہ بہت سی مشہور کمپنیاں جن میں پے پال، ایمازون، ای بے وغیرہ سرفہرست ہیں پاکستان میں اپنی سروسز شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔


محترم وزیراعظم صاحب آپ یقیناَََ پے پال کے نام سے واقف نہیں ہوں گے، اور عین اُمید ہے کہ آپ کی وزارت آئی ٹی میں بھی شائید ایک یا دو افراد اس ’’بلا‘‘ سے واقف ہوں، اگر آپ کسی نوجوان آئی ٹی فری لانسر سے اس کی اہمیت پوچھیں تو وہ آپ کو اسکی تفصیلات سے آگاہ کرے گا۔ صرف ایک پے پال اگر پاکستان میں اپنی سروسز کا آغاز کردے تو پاکستان کو کروڑوں ڈالرز ماہانہ کا زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔

اور اُس سے آپ جتنی چاہیں میٹرو بسیں بنائیں، پُل بنائیں، سڑکیں چوڑی کریں۔ لیکن مہربانی فرما کر ان نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ عوام کے ساتھ گھلیں ملیں، آپ کو معلوم ہو کہ نوجوان کیا چاہتے ہیں؟ پاکستان کا مستقبل ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ ہے، اور اسکے حقیقی معنوں میں ڈیجیٹل بنانے کیلئے حکومت پاکستان کو اپنی سوچ کو بھی ڈیجیٹل کرنا ہوگا۔


ہمارا کام حکومتیں چلانا یا گرانا نہیں، یہ کام سیاستدانوں کا ہے، مگر ہمارے سیاستدان شاید 70 کی دہائی سے نکلنے سے گریزاں ہیں، اگر ہم تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ بر وقت نہیں چلے تو اس کا خمیازہ ہم ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ وقت کی ضرورت اور اہمیت کو دیکھ کر ہی ان سب کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔اپنے فائدے کے لئے ملک کے مستقبل کو دائو پر نہ لگایا جائے تو بہتر ہے.