ترقیاتی منصوبوں پربلا جواز تنقید کا جواب ملکی ترقی کی رفتار مزیدبڑھا کر دیں گے ،وزیراعظم نواز شریف

کہہ چکا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ خلاف آنے پرسٹپ ڈاؤن کرونگا،مگر فیصلہ دھرنے والوں کیخلاف آیا لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی،نواز شریف اگر خلو ص نیت سے عوام کی خدمت کریں تو عوام دو تین چار نہیں بلکہ آپ کو دس بار حکومتیں دینے کو تیار ہیں، سیاسی مخالفین میٹرو بس پر تنقید کر رہے لیکن ہم میٹرو ٹرین کا منصوبہ لے کر آرہے ہیں ،کسان روزی پر لات مارنے والوں سے ضرور سوال کریں ،وزیر اعظم نواز شریف کی گورنر ہاؤس میں اورنج لائن ٹرین منصوبے پر بریفنگ اورمیڈیا سے گفتگو

ہفتہ 10 اکتوبر 2015 17:56

ترقیاتی منصوبوں پربلا جواز تنقید کا جواب ملکی ترقی کی رفتار مزیدبڑھا ..

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 اکتوبر۔2015ء) وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپوزیشن کی تنقید کا بھر پور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنقید کرنے والے سوچ سمجھ کر بات کیا کریں، بلا جواز تنقید کے نتیجہ میں ہمارا جواب ملکی ترقی کی رفتار مزیدبڑھا کر دیں گے ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میٹرو بس نہیں،بلکہ تعلیم چاہیے،ہم کہتے ٹرانسپورٹ اور تعلیم دونوں کی اپنی اہمیت ہے ،کیا عوام کو با عزت سواری نہ دی جائے ،سیاسی مخالفین میٹرو بس پر تنقید کر رہے ہیں لیکن ہم میٹرو ٹرین لے کر آرہے ہیں جس پر پاکستان کے عوام فخر کر سکیں گے،حکومت نے بڑے تین منصوبوں میں 110ارب روپے کی خطیر رقم کی بچت کر کے تاریخ میں نئی روایت قائم کی ہے ،ہم نے سیاسی رسک لے کرتحر یک انصاف کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن بنا یا جس نے دھاندلی کے تمام الزامات کو مستر دکر دیا میں کہہ چکا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کا ہمارے خلاف فیصلہ آیا تو میں سٹپ ڈاؤن کر جاؤں گا لیکن دھرنے والوں کے خلاف تو بھرپور فیصلہ آیا لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی،وزیر اعلیٰ پنجاب کی ٹیم اور ان کے پروگرام قابل ستائش ہے ، پنجاب کی طرح کے کام باقی صوبوں خاص طو رپر پشاور میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں جہاں جتنا جلدی ہوسکے نیا پاکستان بننا چاہیے ،پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر معاملے پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا لیکن ایک پارٹی تلی ہوئی ہے کہ حکومت کی کسی بھی مثبت چیز میں شامل نہیں ہونا بلکہ دھرنوں ،توڑ پھوڑ او رمیں نہ مانوں والی سیاست کرنی ہے،وہ ہر چیز کو سیاست جبکہ ہم ہر چیز کو پاکستان کی خوشحالی کی نظر سے سوچتے ہیں ہم میں اور ان میں یہی فرق ہے ،اگر خلو ص نیت سے عوام کی خدمت کریں تو عوام آپ کو دو تین چار نہیں بلکہ دس بار حکومتیں دینے کو تیار ہیں،کسان روزی پر لات مارنے والوں سے ضرور سوال کریں،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سیاست کی نذرنہیں ہوناچاہیے‘،دسمبر2018 تک بجلی کے 36سو میگاواٹ سمیت دیگر منصوبے مکمل ہوجائیں گے،بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات سے حل کر نا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ گزشتہ روز گورنر ہاؤس لاہور میں اورنج لائن ٹرین منصوبے پر بریفنگ اور میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔ اس موقع پر گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ ، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب خضر حیات گوندل ،چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ عرفان الٰہی ، کمشنر لاہور ڈویژن عبد اﷲ خان سنبل ،ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ ، خواجہ احمد حسان ،روحیل اصغر سمیت اعلیٰ افسران بھی موجودتھے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کی اپنی اہمیت جس پر پورا کام ہو رہا ہے اسی طرح ٹرانسپورٹ کا اپنا مقام ہے کیا غریب لوگوں کو سستی ٹرانسپورٹ نہیں چاہیے ۔ کیا ان کو با عزت قسم کی سواری نہیں چاہیے ۔ یہاں ایک رواج بنا ہوا تھا کہ لوگ بسوں پر لٹکتے ہوتے تھے اور سکول جانے والے بچے بسوں کے پیچھے لٹکے ہوئے ہوتے تھے اور حادثات بھی ہیں لیکن ہم نے اس صورتحال کو بدلا ہے او رایک نیا کلچر پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام کو باعزت سواری میسر آئی ہے ۔

ہم نے تعلیم پر خرچ کیا ہے اور ٹرانسپورٹ پر بھی خرچ کیا ہے جو اتنی ہی اہم ہے ۔ صحت کے شعبوں میں کام کیا جارہا ہے ہسپتال بنائے جارہے ہیں ،زراعت پر توجہ دی جارہی ہے، کسانوں پر توجہ دی جارہی ہے اور کسانوں کے لئے اتنا بڑا پیکج صوبوں کے ساتھ مل کر بنایا گیا تاکہ کپاس اورچاول کے کاشتکار وں جن کو نقصان ہوا حکومت ان کے نقصان کو پورا کرے ۔گنے کے کاشتکاروں کے لئے بھی اہتمام کیا گیا ۔

فارم ٹو مارکیٹ کا بہت بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس میں کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا جس سے ان کی اجناس منڈیوں تک فوری پہنچیں گی اور جب سڑکیں بن جائیں گی کرائے کم ہونگے تو اس سے لاگت بھی کم ہو گی ۔ بر شعبے پر توجہ دے رہے ہیں اور برابر کی ترقی ہو رہی ہے ۔ جو صرف کہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ نہیں چاہیے صرف سکول چاہئیں وہ بتائیں سکولوں تک کیسے پہنچا جائے گا کس طرح لوگوں کے بچے سکولوں تک پہنچیں گے اس کے لئے اچھی سواری بھی چاہیے ۔

اس میں بھی یقینا سوچ بچا ر کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھا جائے کونسی بات کہنی چاہیے اور کونسی بات نہیں کہنی چاہیے ۔ میں خوش ہوں کہ میٹروٹرین کا پریذنٹیشن ہو رہی ہے جس میں علی ٹاؤن سے لے کر ڈیرہ گجراں تک میٹرو ٹرین چلے گی جو تقریباً 27.5کلو میٹر ہو گی ۔ علی ٹاؤن ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس ہے جہاں سے چوبرجی جائے گی ملتان روڈ کے ذریعے وہاں سے جی پی او چوک جائے گی پھر استاد اﷲ بخش روڈ کے ذریعے میکلورڈ سے ہوتے ہوئے بوہڑ والا چوک اور بوہڑوالا چوک سے سلطان پورہ سے ڈیرہ گجراں جائے گی ۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ یہ چیزیں آرہی ہیں ۔شہباز شریف نے پنجاب کے ساتھ لاہور کو ذاتی طو رپر دیکھا ہے ۔ سات سالوں میں لاہور ایک نیا شہر بن چکا ہے ،باقی صوبے کے اندر بھی ترقی کو پہنچا رہے ہیں اور سب جگہوں پر سب شعبوں پر کام ہوتا ہوا نظر ہے ۔ ہم نے بکھکھی میں بجلی کے کارخانے کی بنیاد رکھی ہے جس میں بہت بچت ہوئی ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے خاص طو رپر ذاتی کاوشیں کیں اور میٹرو بس لاہور کے منصوبے کو تیزی سے مکمل کرایا ۔

اسلا م آباد، راولپنڈی کا منصوبہ بھی تیزی سے مکمل ہوا اور یہ بڑا خوبصورت منصوبہ ہے۔ اب ملتان میں اس کی شروعات ہو چکی ہیں اور وہ بھی بہت جلد مکمل ہوگا اسی طرح سے یہ منصوبہ دوسرے شہروں میں بھی پہنچے گا ۔ ٹرانسپورٹ اور پھر سستی ٹرانسپورٹ عوام کی بنیادی ضرورت ہے ۔کئی سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ بنانے تو سکول چاہئیں اور میٹرو بس بنائی جارہی ہے ،لوگوں کو سکول چاہئیں لیکن لوگوں کو میٹرو بس پر بٹھایا جارہا ہے ۔

لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہر چیز کی اپنی اہمیت ہے تعلیم پر بھی اسی طرح سے توجہ دی جارہی ہے جس طرح دینی چاہیے ،خاص طو رپر پنجاب میں تعلیم پر بہت توجہ دی گئی ہے ،تعلیم کے میدان میں اربوں روپے کے وظائف مقرر کئے گئے ہیں جو خاص طور پر غریب بچو ں او ربچیوں کے لئے ہیں ۔ غریب کے بچوں کو میرٹ پر لیپ ٹاپس ملے ہیں ،یہ اپنی مثال آپ ہیں اس سے پہلے حکومتوں نے ان چیزوں پر توجہ نہیں دی ۔

جو بچے او ربچیاں پڑھنا چاہتے ہیں جن کے اندر قابلیت ہے اہلیت ہے ان کے بارے میں وظائف کیلئے کسی نہیں سوچا ، ملک میں پہلی مرتبہ یہ چیزیں ہو رہی ہیں او رمیں یقینا شہباز شریف او رانکی ٹیم کو اس کے لئے شاباش دیتا ہوں جنہوں نے اتنے اچھے پروگرام ترتیب دئیے اور گزشتہ پانچ سال اسی میں گزرے ہیں او رہر طرف ترقی نظر آئی ہے او راب بھی اسی سپرٹ سے اس دو رمیں بھی کا م کیا جارہا ہے ۔

نواز شریف نے کہا کہ میٹرو اورنج ٹرین سے خاص علاقے کے لوگ ہی نہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لوگ مستفید ہوں گے ۔ یہ رفاع عامہ کا بہت بڑا منصوبہ ہے جس پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اگر اس طرح سے خدمت کی جائے گی تو وہ جھولیاں اٹھا کر دعائیں بھی دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رواج تھا کہ جو بھی منصوبہ شروع ہوتا تھا وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتاتھا ۔

اگر ایک سڑک کی تعمیر کا منصوبہ دس دس سال تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا تھا لیکن ماضی میں اور آج کے دور میں واضح فرق ہے ۔ کئی ایسے سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں ‘ سکول کالجز ہیں، یونیورسٹیاں ہیں جو مقررہ مدت سے دو، تین گنا زیادہ وقت لے جاتی تھیں۔آج بھی کئی ایسے منصوبے ہیں جو دس ،پندرہ سالوں سے چل رہے ہیں لیکن مکمل نہیں ہوئے ۔ ہر سیکٹر میں یہی حالت ہے ۔

بہت بری روایت جنم لے چکی ہے جو ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتی ۔ ہم نے ان حالات کو تبدیل کرنا ہے او ریہ ہو رہا ہے ،ہم نے کلچر تبدیل کرنا ہے اور اسے تبدیل کر رہے ہیں ۔ الٹی گنگا کا رخ سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سیدھا کیا جارہا ہے۔ ایسے منصوبوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ اگر کسی پر پچاس کروڑ خرچ ہونا تھا وہ منصوبہ پانچ ارب میں مکمل ہوا اور قومی دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا اوراس کا بے دردی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ہماری نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں کہ اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے ۔

جب میں پچھلے دور میں وزیر اعظم تھا تو حالات آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھے ۔جب 2013ء کے انتخاب کے بعد یہ منصب سنبھالا ہے تو حالات پچھلے ادوار کے مقابلے میں بہت خراب ہیں او راس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بہت سے رکاوٹیں آڑے آتی ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ معاملات یقینا صحیح طرح سے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم پاکستان میں اور بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں،بشمول پی آئی اے ایسے ادارے ہیں جنہیں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔

حال ہی میں پی آئی اے میں ہڑتال کی گئی ۔ پی آئی اے پر اتنے بڑے قرضے ہیں جنہیں دیکھ کر خوف آتا ہے کہ انہیں کس طرح سے اتارا جائے گا اور وہاں پر بے شمار ایسے معاملات ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے اندرڈیڑھ سے پونے دو سو افراد ایک جہاز کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں جبکہ پی آئی اے کے اندر یہ تعداد سات یا ساڑھے سات سو ہے جس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کتنے اخراجات ہیں ۔

ٹھیک کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے او رہم اسے اور ٹھیک کریں گے ۔ پی آئی اے نقصان میں جارہی تھی لیکن پہلی دفعہ منافع میں گئی ہے ۔ منافع میں لیجانا ہمارا ہدف نہیں بلکہ اس کی سروس او رمعیار کو ٹھیک کرنا بھی ہمارا ہدف ہے ۔ مختلف شعبوں میں اصلاحات کرنی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں تعلیم او رصحت کے شعبے ہیں ۔ عنقریب صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی جارہی ہیں اور ان کا عام اور غریب لوگوں کی فلاح سے تعلق ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اورنج ٹرین کا منصوبہ 2017ء کے آخر یا 2018ء کے شروع تک مکمل ہو جائے گا اور اس پر بھرپو رمحنت کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے پیچھے لگنے کی ضرورت ہے ۔ شہباز شریف کا ریکارڈ ہے کہ وقت سے پہلے منصوبوں کو مکمل کرتے ہیں اسے بھی ضرور مکمل کریں گے ۔ میں چین کے صدر ، وزیر اعظم اور چین کی حکومت کا بڑا مشکور ہوں جنہوں نے آسان شرائط پر قرضہ فراہم کیا ہے جس کی ادائیگی 20سالوں میں ہو گی اور پہلے سات سال گریس پیرڈ ہے ۔

میں چین کا شکر گزار ہوں جس نے اس منصوبے میں دلچسپی لی ہے اور سہولت دی ہے ۔ اس سے لاہور کے عوام بہت فائدہ اٹھائیں گے جبکہ دوسرے صوبوں اور شہروں سے آنے والوں کے لئے فائدہ ہوگا ۔ اس سے لاہور کا ہر علاقہ آپس میں منسلک ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ لندن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم زبردست ہے ۔ یہاں بھی لندن کی طرز پر کام چل پڑ اہے ،باقی شہروں میں بھی چل پڑا ہے اسے باقی صوبوں میں بھی ہونا چاہیے ،میں یہی چیز باقی صوبوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں خاص طو رپر یہ پشاور میں دیکھنا چاہتا ہوں جہاں نیا پاکستان جلدی بننا چاہیے بلکہ جتنا جلدی ہو سکے بننا چاہیے ۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم چاہے ہیں کہ یہاں اچھی صحافت ہو اچھی صحافت صحتمند معاشرے کے لئے بہت ضروری ہے اور میں ذاتی طور پر اس طرح کی صحافت کو پسند کرتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ نئے آنیوالے اچھی صحافت کریں گے اور اچھے لوگوں کی تقلید کریں گے اور اچھا نام کمائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ بھکی کے اندر بجلی کے منصوبے کا سنگ بنیا درکھا ہے اور یہ یقینا پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے بلکہ دو اعتبار سے سنگ میل ہے ۔

ایک تو یہ منصوبہ بہت ہی کم لاگت میں لگ رہا ہے ۔ نیپرا کے ٹیرف کے مطابق اسے 95ارب میں لگنا چاہیے تھا اور شاید کسی کی نظر سے بھی نہ گزرتا لیکن وہ اس کی بجائے 55ارب سے لگ رہا ہے اتنی بڑی بچت ہماری روایت سے بالکل ہٹ کر ہے او ردوسری بات یہ ہے کہ اس سے سستی بجلی پیدا ہو گی ۔ ہم کئی دہائیوں سے مہنگی بجلی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ 2018ء تک بجلی آ جانا اتنی بڑی کامیابی نہ ہو لیکن بجلی کی قیمت آدھی ہو جانا بڑی کامیابی ہے ۔

یقینا بجلی آنا بھی اچھی اور خوشی کی بات ہو گی لیکن مقررہ لاگت سے کم پر منصوبے کا مکمل ہونا اور اس سے سستی بجلی کی پیداوار نئی چیزیں ہیں ۔ ہماری ترجیحات بالکل واضح اور صحیح ہیں اور ہم مہنگی بجلی کی طرف سے نہیں گئے ۔ آج کل کی قیمت کے لحاظ سے یہ 7روپے میں کاسٹ کرے گی اگر حالات مختلف بھی ہوتے ہیں تو یہ 7سے 10روپے کے درمیان بھی آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ہم چالیس ،چالیس روپے خرچ کرتے رہے ہیں ۔

اس سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی اور کم آمدنی والوں کو فائدہ ہوگا ۔ ملک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ذخائر لگ رہے ہیں ،ہائیڈرو الیکٹرک سے بھی بجلی حاصل ہو گی ۔ بھاشا ڈیم او رداسو کے منصوبوں سے 9ہزار میگا واٹ بجلی ملے گی جو ببہت سستی ہو گی ۔ بھاشا ڈیم کی لاگت بہت زیاد ہو گی کیونکہ کیپٹل کاسٹ پر خرچ ہوگا کیونکہ ڈیم ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے لیکن اسکی بجلی کی لاگت بہت کم ہو گی اور یہ منصوبے مستقبل کی امید ہیں اور ان منصووں کو زیادہ سے زیادہ لگنا چاہیے اس لئے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی کہا ہے کہ پن بجلی کے منصوبے بنائیں۔

تھر کو خاص اہمیت دی جارہی ہے اور وہاں بھی منصوبے لگ رہے ہیں جو پاکستانی کوئلے کی بنیاد پر ہوں گے۔ پاکستان میں موجود کوئلے کے ذخائر سے کوئلہ نکالیں گے ،یہ علیحدہ منصوبہ ہے پھر اس سے بجلی بنائیں گے ۔ جب پاکستانی کوئلہ ملے گا تو باہر سے کوئلہ منگوانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اس سے اچھا کام اورکیا ہو سکتا ہے ۔ تھر میں کوئلے کے پلانٹس لگ رہے ہیں او ریہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے حالانکہ یہ پہلے بھی ہو سکتے تھے اورہونے چاہئیں تھے ۔

تھر کے ذخائر 2015ء میں تو معرض وجود میں نہیں آئی اگر دیکھا جائے تو کم از کم 1947ء سے تو ہیں اگر اس وقت نہ سہی آج سے بیس ، پچیس سال پہلے ہی اس پر کام شروع کر دیاجاتا ،غالبا یہ غفلت ہے ،اس میں ہمارے دور بھی آئے لیکن ہمیں موقع نہیں دیا گیا اور ہمیں دو ، دو سال ملے ورنہ ہم کئی او منصوبوں پر کام شروع کر دیتے ۔ اﷲ کے فضل سے بجلی کی طرف سے پر امید ہوں پاکستان کے اندر پاکستان کی روشنیوں کو دوبارہ بحال کریں گے،کراچی کی روشنیوں کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بحال کریں گے اور ملک سے اندھیرے چھٹ جائینگے او راس کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں ۔

ہماری ٹیم جس میں وزراء ،سول سرونٹس شامل ہیں صبح تین تین بجے تک معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لئے بیٹھے رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید یہ ممکن نہ ہوتا ،شاید ہم ایل این جی کا سنگ بنیاد نہ رکھ سکتے ،اس کو پیرڈ میں 2017ء کے آخر کی ڈیڈ لائن ہے لیکن دعا کریں اس سے پہلے مکمل کر سکیں ، اس سے 3600میگا واٹ میسر ہوگا ۔ نیلم جہلم کا منصوبہ ہے ، تربیلا IVاور گدو کے منصوبے ہیں۔

اگر خلو ص نیت سے عوام کی خدمت کریں تو عوام آپ کو دو تین چار نہیں بلکہ دس بار حکومتیں دینے کو تیار ہیں اور ہم خلوص نیت سے خدمت کرنا چاہتے ہیں اس سے بڑے ثبوت او رکیا ہو سکتے ہیں کہ تین پراجیکٹس میں 110ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے ۔ ماضی کے اندر کوئی مثال نہیں ملتی کہ 110ارب روپے قوم کا بچایا گیا ہو یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہم عوام کی کمائی کو دل سے محسوس کرتے ہوئے اس میں بچت کر رہے ہیں عوام کا ایک ایک پیسہ عوام کی طرف ہی لوٹنا چاہیے او ران کی فلاح پر خرچ ہونا چاہیے اس سے بڑا ثبوت خلوص ،دیانتداری اور شفاف کا او رکیا ہو سکتا ہے ۔

اگر اس سے پہلے کوئی مثال ہے تو بتا دیں ۔الٹی گنگا کا رخ موڑ کر سیدھا کر رہے ہیں اور کلچر تبدیل ہو رہا ہے ۔ اورنج لائن منصوبے میں بھی بے پناہ بچت ہو رہی ہے اور عنقریب شہباز شریف خود اس پر تفصیلی بریفنگ دیں گے ۔ نیپرا نے ٹیرف مقرر کیا تھا کہ ہم بھکی پراجیکٹ 93ارب میں لگانے کے مجاز تھے اور جو پی سی ون پاس ہوا تھا اس میں بھی گنجائش تھی کہ ہم اس سے زیادہ رقم خرچ کر کے بنا سکیں لیکن اگر ایسا کر بھی لیتے خدا نخواستہ ،اﷲ نہ کرے اگر ہماری نیتیں خراب ہوتیں کہ ہم رقم جیبوں میں ڈال لیں گے ہم کمیشن لیتے ،کمپنیوں کو کہتے 55ارب نہ سہی 60یا 65ارب لے لیں او رباقی کمیشن لے لیتے او رہم کہتے کہ نیپرا کے ٹیرف کے عین مطابق خرچ کی ہے تو شاید ہماری واہ واہ ہو جاتی کہ ہم نے ایک پیسہ بھی نیپرا کے ٹیرف سے زیادہ خرچ نہیں کیا اور پی سی ون کے مطابق خرچ کی ہے ۔

ماضی کے تمام منصوبے اسی طرح ہوتے رہے ہیں بلکہ ٹیرف سے آگے بڑھتے رہے ہیں پی سی ون سے تجاوز کرتے رہے ہیں یہ کیوں ایسا موقع آرہا ہے کہ نیپرا کے ٹیرف سے آدھے اور پی سی ون جس میں گنجائش ہے اس سے کم پر منصوبے مکمل ہو رہے ہیں ۔ اس تبدیلی کا میڈیا کو بھی نوٹس لینا چاہیے ۔ میں اس کے لئے پاکستان کے عوام کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ یہ ایک شفاف حکومت کی کامیابی ہے ،اس میں شہباز شریف نے بڑی محنت کی ہے ۔

کوئی ایسا دن نہیں جاتا کہ شہباز شریف کے دو تین روز ٹیلیفون نہ آئے ہوں ۔ میٹنگز میں ہوتا ہو ں تو فون پہنچ جاتا ہے جہاز میں سفرکر رہا ہوتا ہوں ٹیلیفون پہنچ جاتا ہے کہ فلاں وزیر یا افسر سے کہیں یہ معاملہ آج ہی ہونا چاہیے ۔یہ پیچیدہ معاملا ت تھے او رہم نے خود بنائے ہیں ۔جب پچھلے دور میں 99ء میں حکومت میں تھا تو اس وقت پیچیدہ معاملات نہیں تھے یہ اس کے بعد سے بنے ہیں اور نیپرا ، پیپرا کی باڈیز بنیں جنہوں نے پرائیویٹ سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا تھا لیکن پرائیویٹ سیکٹر اس طرف آیا نہیں ، آنے نہیں دیا گیا یا موقع نہیں ملا اب یہ حکومت کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تعلیم کے میدان میں شہباز شریف انقلابی تبدیلی لے کر آئے ہیں ان شخصیات کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف نے سکولوں میں کیا کام کیا ہے پہلے لوگ بسوں اور ویگنوں میں مشکل سے سفر کرتے تھے اوراب عزت سے ائیر کنڈیشنڈ بس میں بیٹھ کر اپنی مسافت طے کرتے ہیں۔یہ منصوبے عوامی فلاح کے منصوبے ہیں اور میں اس پر بجا طور پر فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری حکومت پہلی مرتبہ ملک میں اس کی بنیاد ڈال رہی ہے آئندہ منصوبوں میں لاہور اورکراچی کے درمیان موٹر وے بھی شامل ہے ،کراچی حیدر آباد موٹر وے پر کام شروع ہو چکا ہے ،اب لاہور سے ملتان او رملتان سے آگے حیدر آباد پر کام عنقریب شروع ہو رہا ہے ۔

میڈیا موجودہ اور سابقہ حکومتوں کا ضرور موازنہ کرے ۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کے لئے 341ارب کے پیکج کا اعلان کیا ،اس کے تیاری بھی کر لی گئی اور اگر اس کی تقسیم شروع ہو چکی ہو تی تو شاید اس پر عملدرآمد مکمل ہو چکا ہوتا لیکن کچھ سیاسی شخصیات جن کو تجربہ نہیں ہے انہیں معلوم نہیں کیا کرنا ہے انہوں نے اسے بلدیاتی انتخابات سے جوڑ دیا ۔مجھے اس پر بڑی تکلیف اور دکھ ہوا کیونکہ کسان کو ایک ایک دن مہنگا پڑ رہا ہے اوروہ رو رہا ہے اس کو نقصان ہوا ہے ۔

دنیا میں اجناس کی قیمتیں گری ہیں اس لئے اس کو سپورٹ ملنی چاہیے تھی ۔ چاول کے کاشتکار کو براہ راست ریلیف دے رہے تھے ،کپاس کے کاشتکار کے لئے بھی اسی طرح کا پروگرام تھا ،کھاد کی قیمتوں کو نیچے کرنے کا اعلان کیا ۔ قرضوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا، اسی لئے سولر ٹیوب ویلوں کی بات کی گئی ، یہ ایسا پروگرام تھا جس سے ہم غریب کسانوں کو سپورٹ دینا چاہتے تھے اور کسان آپ کے لئے بھی دعائیں کرتے ۔

لیکن کسان دیکھ رہے ہیں کس طرح کے سیاستدان جو ہماری روزی کا راستہ روک رہے ہیں ،خوشحالی کا راستہ روک رہے ہیں ۔ کسان نے ربیع کی فصل کی تیاری کرنی ہے اگر پیسہ نہیں ہوگا کہاں سے تیاری کرینگے۔انہوں نے پیپلزپارٹی کی طرح پی ٹی آئی سے میثاق جمہوریت طے کرنے کے سوال پر کہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ لیڈر شپ کے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں ۔

پاک چین اقصادی راہداری پر ہم سب مل کر بیٹھے اگر وہاں پر کسی کوکوئی بھی تحفظات تھے اسے دور کیا گیا اور اتفاق رائے پیدا کرکے وہاں سے اٹھے ۔ یہ بہت بڑا منصوبہ ہے ،یہ پاکستان کے لئے تاریخی منصوبہ ہے اور اس منصوبے میں کئی او رمنصوبے ہیں ۔ ہم نے کہا کہ اس منصوبے کو سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے اور اتفاق رائے پیدا کیا ۔ ضرب عضب کے لئے اتفاق رائے پیدا کیا گیا، نیشنل ایکشن پلان ،فوجی عدالتوں کے قیام بارے اتفاق رائے پیدا کیا ۔

جمہوری حکومت نے پورے خلوص کے ساتھ سیاسی قیادت کو اکٹھا کیا اور فوجی عدالتوں بارے فیصلہ کیا گیا اوراسکے تحت کئی کیسز کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ کراچی آپریشن اتفاق رائے سے شروع کیا گیا او ر اس کے لئے میں کئی دفعہ کراچی گیا اور کراچی آپریشن انتہائی کامیابی سے جاری ہے ۔ ضرب عضب بھی کامیابی سے جاری ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہدری پر کام شروع ہو چکا ہے اور اس کی کامیابی سے شروعات ہو چکی ہیں جہاں جہاں اتفاق رائے کی ضرورت ہو گی میں اس کے لئے تیار ہیں اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے ۔

لیکن ایک پارٹی اس بات پر تلی ہوئی کہ اس نے کسی بھی مثبت چیز میں شامل نہیں ہونا ،اس نے دھرنوں ،توڑ پھوڑ او رمیں نہ مانوں والی سیاست کرنی ہے او رپاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر خوش نہیں ہونا ،پھر میں تو کچھ نہیں کر سکتا ،ہم تو پاکستان کی ترقی کے لئے کام کرتے چلیں جائیں گے ۔یہ منفی کردار ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے کسان پیکج کی مخالفت کی انہیں اندیشہ تھا کہ اگر کسان یہ پیکج حاصل کر لیں گے تو ان کی مدد ہو جائے گی ان کی سیاست پر منفی اثر پڑ جائے گا یہ ہر چیز کو سیاست کے حوالے سے سوچتے ہیں او رہم ہر چیز کو پاکستان کی خوشحالی کے حوالے سے سوچتے ہیں اور ہم میں اور ان میں یہی فرق ہے ۔

وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سوال پر کہا کہ ہم تو شروع دن سے بات چیت کر رہے ہیں ۔ دھرنوں سے پہلے میں ان کے گھر پر گیا ہوں ، وہاں ہم نے بیٹھ کر بات کی ۔ میں نے کوئی عار محسو س نہیں کی کہ میں وزیر اعظم ہوں ۔ وہاں خوشگوار موڈ میں باتیں ہوئیں لیکن ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھرناشروع ہوگیا اور دھرنوں کے بعد کس قسم کی سیاست ہوتی رہی سب کو معلوم ہے ۔

پھر انہوں نے دھرنے خود ہی ختم کئے ہم نے انہیں نہیں کہا ۔ پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا ، قومی اسمبلی کے دروازے توڑے گئے اور ہلہ گلہ کیا گیا ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی او ر یہ کہا گیا کہ ہم وزیر اعظم کو گلے میں رسی ڈال کر باہر نکالیں گے ، سپریم کورٹ کے ججز کا راستہ بند کردیا ۔ جس طرح سے کنٹینر سے تقریریں کی گئیں وہ مناظر قوم کو یاد ہیں ،اس کے باوجود اسحاق ڈار نے حکومت کی طرف سے بات چیت کی اور طے کیا اور جوڈیشل کمیشن بنا دیا ۔

اگر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ میرے خلاف آتا تو کیا مجھے بطور وزیر اعظم رہنا چاہیے تھا لیکن ہم نے ملک کی خاطر بہت بڑا رسک لیا کیونکہ ہم ملک میں اچھی فضا بنانا چاہتے تھے ۔ ہم نے پاکستان کے اندر سے تخریبی سیاست ختم کرنے کیلئے یہ اقدام کیا ،ایک جوڈیشل کمیشن ہمارے خلاف فیصلہ دیتا تو میں ایک منٹ بھی وزیراعظم کے منصب پر فائز نہ رہتا اور سٹپ ڈاؤن کرتا لیکن ان کے خلاف فیصلہ آیا ہے لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،اگر میں وزیر اعظم ہو کر سٹپ ڈاؤن کر کے گھر جا سکتاہوں تو ان کو بھی کوئی اقدام کرنا چاہیے ان کے خلاف تو بھرپو ر فیصلہ آیا لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ضرب عضب ، اکیسیوں ترامیم ، کراچی آپریشن سمیت ہر موقع پر انہیں دعوت دی ہے اور انہیں باہر نہیں رکھا ہے ۔