بھارت کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ، بات چیت نہ کرنے پردونوں ممالک کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی ، ہمارے دور میں پاک بھارت امن مذاکرات کا بہت فائدہ ہوا،مشرف کے بعد فوج آج بھی انہی شرائط پر عمل پیرا ہے ، فوج بطور ادارہ اتنی جلدی اپنی رائے نہیں بدلتا، چیلنج کرتا ہوں میری کتاب کو کوئی جھٹلائے یا چیلنج کرے کوئی بڑی تردید نہیں آئے گی ‘ اپنے دور حکومت پر پرویز مشرف ،منموہن سنگھ یا میں کتاب لکھ سکتاہو ں، اس کے علاوہ کو ئی بھی اور کتاب نہیں لکھ سکتا ‘ چھ ہفتے گزرنے کے باوجود پاکستان یا بھارت کسی جگہ سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا،کتاب میں مسئلہ کشمیر پر منصفانہ موقف پیش کرنے کی کوشش کی

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 15 اکتوبر 2015 21:24

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 اکتوبر۔2015ء) سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ چیلنج کرتا ہوں میری کتاب کو کوئی جھٹلائے یا چیلنج کرے کوئی بڑی تردید نہیں آئے گی ‘ اپنے دور حکومت پر سابق صدر پرویز مشرف ،منموہن سنگھ یا میں کتاب لکھ سکتاہو ں اور اس کے علاوہ کو ئی بھی اور کتاب نہیں لکھ سکتا ‘ بھارت کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ورنہ اس کی دونوں ممالک کو کو قیمت ادا کرنا پڑے گی ،ہمارے دور میں پاک بھارت امن مذاکرات کا بہت فائدہ ہوا،مشرف کے بعد فوج آج بھی انہی شرائط پر عمل پیرا ہے کیونکہ فوج بطور ادارہ اتنی جلدی اپنی رائے نہیں بدلتا ،اپنی کتاب میں قیام امن کے حوالے سے پاک فوج کے کردار پر تفصیل سے لکھا ہے ،پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتیوں کے لئے بھی کتاب لکھی اور چھ ہفتے گزرنے کے باوجود پاکستان یا بھارت کسی جگہ سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا،کتاب میں مسئلہ کشمیر پر منصفانہ موقف پیش کرنے کی کوشش کی اورکشمیری رہنماؤں کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی اختلاف رائے سامنے نہیں آیا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بھارت میں اپنی کتاب کی رونمائی کے بعد وطن واپس پہنچنے پر اپنی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اتنی ماہر ہو گئی ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ایک دوسرے کی خامیاں کیا ہیں اور ان سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھارت میں خطرناک حالات کا اندازہ تھا لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ یقین بھی تھا کہ مجھے بطور سابق وزیر خارجہ سکیورٹی دی جائے گی اور ایسا ہی ہوا کہ مجھے وہاں تسلی بخش سکیورٹی دی گئی اور میں اس پر بھارتی حکام کا شکر گزار ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں عزت دار تعلقات کے بغیر امن نہیں ہو سکتا اور دونوں ممالک کی افواج بھی یہ جانتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی کے کہنے پر بھارت نہیں کیا گیا بلکہ میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لئے گیا تھا اور میں نے اپنی کتاب پہلے ہی بھارتی رہنماؤں کو بھجوا دی تھی جو انہوں نے پڑھ رکھی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کا میڈیا اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ اگر ٹاپ کے اینکرز اور ٹاپ کے ایڈیٹرز کو ایک میز پر بٹھا دیں تو مسئلہ کشمیر کے معاملے میں کافی حد تک بہتری آ جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ اگر نریندری مودی خو دکو کامیاب وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر آ جائیں ورنہ تاریخ میں ان کا نام بھی نہیں رہے گا اور اس سے نہ بھارت ترقی کر سکے گا اور نہ دونوں ممالک میں امن قائم ہو سکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بھارت جا کر ہر فورم پر بھارت کی مشروط مذاکرات کے معاملے پر بات کی اور کہا کہ یہ درست نہیں کہ صرف یہ بات کہی جائے کہ صرف دہشتگردی کے معاملے پر بات چیت کریں گے بلکہ کشمیر پر بات چیت ہونی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ قبل بھارتی تنظیموں کی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس کے بعد بھارت وزیر اعظم نریندر مودی کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان سے بات چیت کرنا بہت ضروری ہے اور یہ اس بات کاثبوت ہے کہ ان کے وزیر اعظم غلط سمت جارہے ہیں۔ اس کے بعد ہی اوفا میں نواز شریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے واقعہ رونما کرنے کے بعد وہاں کے دانشور اور دیگر شخصیات اعزازات واپس کر رہی ہے اور اس میں بھارت میں شدید رد عمل آیا ہے ۔

گائے کے گوشت کے معاملے میں بھی انتہا کا رد عمل آرہا ہے ان واقعات سے مودی پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بطور وزیر خارجہ کشمیر کے مسئلے پر بہت کام کیا اور بھارت کو بھی کوئی دوسرا خورشید قصوری مل ہی جائے گی ۔ بیک چینل رابطوں کا چند افراد کو ہی علم ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنماؤں نے بھی میری کتاب کوکافی حد تک پسند کیا ہے او رمیر ی میر واعظ عمر فاروق سے بھی ٹیلیفون پر بات ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں میری کتاب کی چار مقامات پر تقریب رونمائی ہوئی اور میں تمام بڑے رہنماؤں کو یہ کتاب بھیجوا چکا تھا اور چھ ہفتے گزر گئے ہیں اس پر کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا ۔ میں نے یہ کتاب پرویزمشرف ، اشفاق پرویز کیانی اور دیگر رہنماؤں کو بھی بھجوائی ہے اور ان کی طرف سے بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا یا میری کسی بات کو غلط قرار دیا گیا ہو۔ کسی نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ آپ نے مکمل طور پر غلط بیانی کی ہے ۔ میں نے اپنی کتاب میں حقائق بیان کئے ہیں جنہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔ میں نے اپنی کتاب میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور اپنی کتاب میں بھارت کے موقف کا بھی ذکر کیا ۔ اپنی کتاب میں منصفانہ موقف پیش کرنے کی کوشش کی ۔