ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں‘ منصفانہ ریاست کے قیام کا تصور ریاست کے قیام کا قانونی جواز ہے ,قوانین پر عملدرآمد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ، جب سماج میں فرد کے حقوق کی نفی یا خلاف ورزی کی صورتحال سامنے آئے تو عدلیہ کا فرض بن جاتا ہے کہ انتظامی اصلاحات کے لئے اپنا کردار ادا کرے ، عوام کے منتخب نمائندوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ آئین کو اس کی حقیقی رو کے مطابق نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے قانون و انصاف کی خدمات کا معیار بلند ہو

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب

منگل 3 نومبر 2015 19:28

ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں‘ منصفانہ ریاست کے قیام ..

اسلام آباد ۔03نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔3 نومبر۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں‘ منصفانہ ریاست کے قیام کا تصور ریاست کے قیام کا قانونی جواز ہے‘ ریاست کے باشندوں کو یہ نظر آنا چاہیے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور قوانین کی تشکیل مفاد عامہ کے لئے کی گئی ہے‘ قوانین پر عملدرآمد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن جب سماج میں فرد کے حقوق کی نفی یا خلاف ورزی کی صورتحال سامنے آئے تو عدلیہ کا فرض بن جاتا ہے کہ انتظامی اصلاحات کے لئے اپنا کردار ادا کرے‘ ناقص عملدرآمد اور کمزور نظم و نسق ہو تو صورتحال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ کو انتظامی امور میں مداخلت کرنا پڑتی ہے‘ عوام کے منتخب نمائندوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ آئین کو اس کی حقیقی رو کے مطابق نافذ کیا جائے‘ ہمیں آپس میں ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا ہوگا‘ جس آئین کو مضبوط ریاست کا سہارا نہیں ملتا وہ اپنے وجود کا جواز کھو دیتا ہے‘ قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کے لئے قومی سوچ کی ضرورت ہے‘ ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی سہولت ختم کرنے سے سپریم کورٹ میں مقدمات کی تعداد بڑھ جائے گی‘ پارلیمنٹ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے قانون و انصاف کی خدمات کا معیار بلند ہو۔

(جاری ہے)

منگل کو پورے ایوان پر مشتمل سینٹ کی خصوصی کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ یہ امر میرے لیے باعث مسرت اور افتخار ہے ،کہ آج میں یہاں، جناب چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر اس معزز ایوان سے مخاطب ہوں۔ میری یہاں آمد، اس تاریخی واقعے کا تسلسل ہے جب کچھ عرصہ قبل جناب چیئرمین سینیٹ نے کمال مہربانی سے ہماری دعوت کو قبول کیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان تشریف لاکر اداروں کی اہمیت ،بالخصوص قانون کی بالادستی جیسے اہم موضوع پر اظہارِخیال فرمایا۔

جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روشنی میں ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے نہایت مستحسن قدم تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی آج کی اس تقریر کا آغاز کرنے سے پہلے اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تقریب کے تسلسل کی پہلی نشست میں جو کہ 5ستمبر2015ء کو سپریم کورٹ بلڈنگ میں منعقد ہوئی تھی۔ ہمارے سابقہ چیف جسٹس محترم جوادایس خواجہ صاحب نے ایک نہایت اہم اور فہم و فراست سے بھرپورخطاب کیا تھا اور آج کا یہ خطاب انہی باتوں کا ایک تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آئین کے آرٹیکل۳۷ کی روشنی میں، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مفصل سفارشات پیش کرچکا ہے۔ میری آج کی گفتگو، اسی تناظر میں اداروں کے عمومی استحکام، بالخصوص، سماج اور ریاست کے استحکام کو ممکن بنانے کے لیے قانون کی بالادستی کی اہمیت اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر مرکوز ہوگی، جن کا وجود پاکستانی عوام کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ریاست کا تصور ایک سماجی و سیاسی مفاہمت پر استوار ہے جسے کہیں معاہدہ (کنٹریکٹ) تو کہیں تصفیہ (سیٹلمنٹ) یاباہمی اعتماد (ٹرسٹ) کے عنوان سے پکارا گیا ہے جو آئین کی اساس ہے۔ ہمارا یہ مشاہدہ معاشرے اور ریاست کی تشکیل میں آئین کی کلیدی اہمیت کے علاوہ پاکستان سے متعلق ہماری امنگوں کی نوعیت اور وسعت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے قبل، میں آئین کی اہمیت کے بارے میں مختصر گزارشات کرنا چاہوں گا جس کے بعد میں اداروں کی اہمیت اور قانون کی بالادستی پر بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی تمہید میں پہلے تو اس ریاست اور معاشرے کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کی گئی ہے، جس کا خواب دیکھا گیا تھا ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ "نظم (آرڈر) کا قیام عوام کی مرضی سے ہوگا" یہاں مملکتِ پاکستان کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جس کے بعد “نظمِ نو” کے تصور کی تشریح کی گئی ہے۔ بعدازاں تمہید کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ "اب، لہٰذا، ہم، پاکستان کے عوام، قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے، اپنے لیے آئین کو اختیار اورنافذ کریں گے"۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی طور پر،"پاکستان کے عوام" ہی ریاستِ پاکستان کے ضامن اور اس سے مستفید ہونے والے ہیں جو اس عزم پر کاربند ہیں کہ اپنے قومی اور سیاسی اتحاد اور یکجہتی کا تحفظ کریں گے ۔ہمار ے آئینی ڈھانچے میں ، اختیار ات کو وسیع پیمانے پر معاشرے میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ پا کستان کے عوام ہی ان اختیارات کی قوتِ نافذہ کاجواز اور منبع ہیں۔

اسی بناء پرریاست اور سماج کے رشتے کو آئین میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ریاست جمہور کی منشاء پر قائم ہوئی ہے جس کی توضیح آئین میں کی گئی ہے ۔اسی تناظر میں پاکستان کے عوام اپنے اختیار و اقتدار کواپنے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کو تفویض کرتے ہوئے بروئے کار لاتے ہیں ۔ درحقیقت یہ تفویض، اس امر کی جانب پہلا اشارہ ہے کہ منتخب نمائندے اور درحقیقت ریاست کا تمام ڈھانچہ ہی پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہے۔

چونکہ سماج ہی ریاست کے تمام عناصر اور کارندوں کو وجود کا جواز بخشتا ہے، اس لیے لازم ہے کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق خدمات انجام دیں تاکہ عوام اور ریاست کے مابین فاصلے محدود ہوسکیں اور عوام کا ریاستی اداروں اور پالیسیوں پر اعتماد بحال رہ سکے۔ عوام کی توقعات اور تقاضے ہی دراصل ہماری کارکردگی کو جانچنے کے پیمانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی ہئیت کے اعتبار سے تمام ریاستی قوت اور اختیارات اس حتمی اور اخلاقی عقیدے کے تحت مقرر کردہ حدود میں منظم اور منقسم ہے کہ "حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ جل شانہ " کے پاس ہے ؛ اور سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔

آئین کی اسی تمہید میں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ "عدلیہ کی آزادی کو کْلی طور پر محفوظ رکھا جائے گا" تاکہ "مکمل انصاف" کیا جاسکے۔ (آرٹیکل (1) 187)، جس کے لیے پاکستان کے تمام انتظامی اور نظام عدل سے وابستہ اداروں اور محکموں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی معاونت کریں گے ۔ (آرٹیکل 190)۔ ہمارے آئین میں ریاستی اداروں کے درمیان تقسیمِ اختیارات کا بہترین توازن قائم کیا گیا ہے جس کا خیال رکھنا تمام اداروں پر لازم ہے ۔

انہوں نے کہاکہ لازم ہے کہ ہم اس امر کا ادراک کریں کہ ہمارا آئین تغیر پسند ہے۔ یہ ریاست کے لیے ایسا وژن پیش کرتا ہے جہاں ریاست معیار تشکیل دیتی ہے۔مزیدبرآں،یہ آئین ، ریاست کو ترقی کا وہ راستہ چننے کا اختیار دیتا ہے جسے آئین کی تمہید، قرادادِ مقاصد، بنیادی حقوق اور پالیسی اصولوں میں جا بجا واضح کیا گیا ہے۔مختصر الفاظ میں، یہ آئین ہی بیان کرتا ہے کہ پاکستان کیا ہے، وہ عزم کیا ہے جس کا نام پاکستان ہے، اور وہ کون سے اختیارات ہیں جو ریاستی اداروں اور نمائندوں کو حاصل ہیں تاکہ وہ اس عزم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

ہمیں نہایت دانشمندی اور جاں فشانی کے ساتھ اپنی ریاست کے اجزاء اور سماج کی کارکردگی کوجانچنا ہوگا تاکہ اس آئینی تقاضے کی تکمیل کرسکیں۔ جیسا کہ آئین کی تمہید میں لکھا ہے، وہ "نظمِ نو" (New Order)جس کے قیام کا ہم سب نے وعدہ کیا ہے ، ایک ایسے سماج کی تشکیل کا عزم ہے جو مساوات کے اصولوں پر مبنی ہو ، جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت ہو اورجہاں ریاست کے باشندوں کو سماجی اور معاشی انصاف ملے ، زندگی میں فکر و عمل ، اظہارِ رائے ، اجتماع اورمذہبی آزادی حاصل ہو ۔

اسی بنا پر ہمارے آئین میں منصفانہ ریاست کے قیام کا ہدف پورا کرتا ہے جس کا ہم سب نے عزم کیا ہے۔ میری نظر میں ، یہ ایک روشن خیال، عملیت پسند اورجامع مینڈیٹ ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے، اور جس کا ہمیں اعتراف کرنا ہوگا، کہ ہم اس مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور ہمیں فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں ریاست اور سماج میں آئینی روح کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ پاکستان سے وابستہ وعدوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے اور رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

اور آئین کے ان بنیادی تغیراتی عناصر کی تصریح کی جائے جو ریاست اور سماج کے مابین رشتے کی وضاحت کرتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں ہمارے عزم، مملکت کے باشندے کی حیثیت سے حاصل حقوق ، فرائض اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ عمل ہی دراصل پاکستان کا مقصد اور اساس ہے جس سے اس ملک کا خمیر اٹھتا ہے۔ یعنی ایک منصفانہ ریاست اور سماج۔اور جس کو اپنانے اور فروغ دینے کی ذمے داری اْن سب پر کماحقہ لازم ہے ، جو عوامی اور سرکاری نمائندے کی حیثیت سے اس ریاست کا حصہ ہیں۔

اسی لیے اپنی ذمے داری کے طور پر ، میں نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان میں قانون کی عمل داری اور بنیادی حقوق کے بارے میں رائے عامہ کو زیادہ سے زیادہ باخبر کرنے کے بارے میں فعال کردار ادا کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کی عمارت ایک نہایت نازک تصور پر استوار ہوتی ہے یعنی لوگوں کا اداروں پر اعتماد۔ قانون کی بالادستی کا عمل، ریاست اور سماج کو زندہ اور توانا رکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے، جس سے ریاست اور ریاستی نمائندوں کے دائرہ کار کی حدود طے ہوتی ہیں تاکہ آئین و قانون کے تقاضے پورے ہوسکیں؛ یہ ریاست اور اس کے باشندوں کے درمیان تعلق کو منظم کرتا ہے جس میں امور مملکت کا نظام کار اور نجی فریقین کے مابین تنازعات کے تصفیے بھی شامل ہیں۔

اگر نہایت سادہ انداز میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں ۔ آئینی تقاضوں کے بارے میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آئین کے آرٹیکل۵ ۲ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو واضح طور پر کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور یکساں قانونی تحفظ کے حق دار ہیں ۔ ہر شہری کا یہ ناقابلِ تنسیخ حق ہے کہ اُس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے (آرٹیکل ۴)۔

جیسا کہ فرانسس فوکویاما (Francis Fukayama) نے لکھا ہے کہ قانون کی بالادستی در اصل ایک مذہبی تصور ہے جس کی توثیق ہمارے آئین کے اس نظریے سے بھی ہوتی ہے کہ تمام اخلاقی اور حتمی حاکمیتِ اعلیٰ “صرف اللہ سبحا نہ و تعالیٰ” کو ہی حاصل ہے اور جس کی جانب شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے شکوہ (1909) میں نہایت نزاکت سے اشارہ بھی کیا ہے:۔


آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ روہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے! تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!
آئین کے تحت ایک منصفانہ ریاست کے قیام کا تصورمحض قانون اور ضابطے کی کارروائی نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کے قیام کا قانونی جواز ہے۔

اس کے پسِ پشت یہی قوی مذہبی واخلاقی سوچ کارِفرما ہے ۔یہی سوچ دراصل انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیے تحریک مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ، سماج کو جوڑنے کے لیے اخلاقی و سیاسی جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا ہماری ریاست کا مطمعِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ اس کی پالیسیاں اور قانون سازی، پاکستان کے بارے میں ہمارے وژن اور امنگوں سے ہم آہنگ ہو۔انہوں نے کہا کہ اس طرح یہ طے شدہ امر ہے کہ ریاستی ادارے، جو ہماری پایسیوں اور قوانین کا نفاذ کریں یوں تشکیل دئیے جائیں کہ وہ اپنی ساخت میں نمائندہ، غیر جانب دار اورمنصفانہ ہوں۔

یہ محض نیک خواہشات نہیں بلکہ آئینی اور قانونی تقاضے ہیں جو کسی بھی منصفانہ بنیادوں پر استوار معاشرے میں قانون کی بالادستی کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ریاستی اداروں کی ساخت، عمل داری اور کارکردگی سے بھی ہے۔ ریاست کے باشندوں کو یہ نظر آنا چاہیے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور قوانین کی تشکیل مفاد عامہ کے لیے کی گئی ہے۔

آگے بڑھتے ہوئے، اب میں قانون کی بالادستی کے تصور کی کلیدی اہمیت کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ قانون کی بالادستی کو روزمرہ زندگی ، ریاستی امور کی انجام دہی، سماجی نظم کے فروغ اور عوام کے آپس کے معاملات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اقوام عالم نے انصاف تک رسائی کے لیے قانون کی بالادستی کو پائیدار ترقی کے اہداف(Sustainable Development Goals) میں شامل کیا ہے ۔

حکومتِ پاکستان نے بھی اپنے وژن 2025ء میں ایک قوم -ایک نصب العین پالیسی میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ قانون کی بالادستی ایک "نا گزیر ضرورت" ہے (صفحہ ۳۰)۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ "اس بات پر اتفاقِ رائے بڑھ رہا ہے کہ ملک کا مستقبل قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور آئین کی عملداری میں ہی مضمر ہے" (صفحہ ۵)۔وژن میں اس امر کو ایک ترجیح کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ "ایسے قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو عوام کو بااختیار بنائے، اور اس بات کی ضمانت فراہم کرے کہ عوام عزتِ نفس کے ساتھ زندہ رہیں، ان کے انسانی حقوق اورجانیں محفوظ ہوں" (صفحہ ۸)۔

ضروری ہے کہ آپ کے سامنے میں یہ عہدو پیمان پڑھ کر سُناؤں جو یوں ہے؛"قانون کی بالادستی نہ ہو تو پائیدار اور مسلسل ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔ لہٰذا اس وژن کے حصول کے لیے قانون کی بالادستی کو ممکن بناناہوگا تاکہ معاہدات پر عمل درآمد، منڈیوں کا انتظام، مسابقت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تدارک اور ہر باشندے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سمیت ایسے ہی مزید اہم معاملات کو چلایا جاسکے۔

حکومت ایسا ماحول مہیا کرے گی جس میں قانون کی بالادستی کا سختی سے نفاذ ہوسکے۔ جس کے لیے عدلیہ کو مستحکم کیا جائے گا ، پولیس اور کرمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کی جائیں گی ، قوانین اور ضوابط کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا؛ اور تنازعات کے تصفیے کے رسمی اور غیر رسمی ذرائع کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ اس کا مقصد صرف اتنا ہوگا کہ معاشرے کے تمام طبقات کو قانون اور انصاف کی یکساں رسائی حاصل ہو" انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ اداروں کے ساتھ شراکت قائم کریں گے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف اور وژن۲۰۲۵ءء کے بارے میں قومی عزم پر عمل پیرا ہوسکیں۔

میں نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ضمن میں تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ پیش رفت کو ممکن بنائے، جس کی میں کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے خود نگرانی کروں گا۔ایک قومی مقصد کے ساتھ یہ میرے عزم کا اظہارہے۔ ہم سب قانون کی بالادستی کی اہمیت سے متفق ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بارے میں ہماری کارکردگی کا معیار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قوانین کی افراط ہے۔

شاید کچھ شعبوں میں ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ قوانین ہیں۔ لیکن ہمیں قوانین پر عمل درآمد کے سلسلے میں بحران کا سامنا ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔اُن عُمد ہ قوانین کا کوئی فائدہ نہیں جن کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے غیر مو ثر ہوں۔ آئینی اقدار و روایات کے فروغ اور انصاف کی فراہمی کے لیے جو خدمات ادا کی جارہی ہیں ، ان کا معیار کئی وجوہات کی بنا پر غیر تسلی بخش ہے۔

ان وجوہات میں انتظامی اور تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان، خصوصی مہارتوں کی کمی، ناکافی وسائل کا غلط اور بے جا استعمال اور بد انتظامی کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ بھی شامل ہیں۔ ہمارے پاس اپنی کارکردگی کی جانچ اور تجزیے کا کوئی نظام نہیں۔ ہمارے پاس کوئی نظام نہیں جو بتا سکے کہ انصاف سے وابستہ امیدیں کیا ہیں اور ان سے تشفی کی کیا کیفیت ہے۔

یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی کے عمل میں معیار کی نگرانی کا فقدان ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد انتظامیہ کی اوّلین ذمے داری ہے۔تاہم جب سماج میں فرد کے حقوق کی نفی یا خلاف ورزی کی صورت حال سامنے آئے تو یہ عدلیہ کا فریضہ بن جاتا ہے کہ انتظامی اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ بہتر ہوتا ہے کہ حکومت خود اس عمل کی رہبری کرے، لیکن اگر ناقص عمل درآمد اور کم زور نظم ونسق ہو تو صورت حال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے، عدلیہ کو انتظامی امور میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔

اسی بنا پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی اعانت کے لیے آگے آنا پڑا تاکہ ایسے معاملات کا جائزہ لیا جائے، انتظامی اصلاحات پر تبادلہ خیال ہو اور بعدازاں ان پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین پر عمل درآمد میں کمزوری کا ایک نتیجہ، قانون کے دائرے سے اخراج بھی ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاست کا تشکیل کردہ نظام انصاف، سماج میں جنم لینے والے تمام تنازعات کا صرف بیس فیصد حصہ ہی نمٹاتا ہے جبکہ بقایا اسی فیصد تنازعات کا تصفیہ جرگہ اور پنچایت جیسے غیر منظم اور بے ضابطہ ذرائع سے ہورہا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ صورت حال نہ صرف نظام قانون سے بڑے پیمانے پردوری کا عکاس ہے بلکہ ریاست، سماج اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلوں کا سبب بھی ہے۔ اپنے بیشتر شہریوں کی انصاف کی ضرورتوں کی تشفی کرنے میں ریاست کی ناکامی ، ریاستی اداروں کے وجود کے جواز پرسوالیہ نشان لگا دیتی ہے ، جو خود ریاست کی عمل داری کو کمزور کرتی ہے، جس کا نتیجہ امن و امان کی خراب صورت حال، نظم و نسق کی کمزوری یا ریاستی گرفت سے بعض علاقوں کی دوری اور عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے کی جانب سے ریاستی اقدامات کی توثیق یا تردید کو ہم سرسری انداز میں نہیں دیکھ سکتے۔ریاستی اداروں کے وجود کے جواز، اور ان پر عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ان اداروں سے معاشرے کی جائز توقعات، ضروریات اور امنگوں کا کُلی طور پر اور بروقت جائزہ لیا جائے۔ معاشرے پر ایک دانستہ اور سوچی سمجھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ باہمی معاملات اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کی انصاف، تحفظ اور ترقی جیسی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے، کیونکہ یہی استعداد کسی بھی مملکت کواپنے وجود کا جواز عطا کرتی ہے۔

یقیناً، آئین بھی اس ضرورت کو تسلیم کرتا ہے کہ "مقامی ریاست" اور مقامی نظم و نسق کو مستحکم کیا جائے (آرٹیکل ۳۲)، تاکہ ریاستی امور میں زیادہ سے زیادہ فریقوں کو شمولیت کے مواقع مل سکیں اور سیاسی تنازعات کماحقہ طے کیے جاسکیں۔تاہم یہ وسیع تر پالیسی امور پارلیمنٹ اور متعلقہ حکومتوں کودیکھنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کو ممکن بنانے کے لیے، ہمیں زیادہ فعالیت کے ساتھ دیکھنا ہوگا کہ معاشرے کے غریب اور نظرانداز طبقات کو تحفظ اور انصاف کی خدمات مہیا ہوتی رہیں ۔

ہماری کاوشیں نتیجہ خیز ہونی چاہیں یعنی ہم اپنے اقدامات کے اثرات اور نتائج پر نظر رکھتے ہوں۔لہٰذا قانون کے دائرے میں سب کی شمولیت کو ایک قومی مقصد کے طور پر سامنے آنا چاہیے ، جس کو ہم انصاف تک رسائی اور پائیدار ترقی کے ہدف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھ سکیں۔اس کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کو نظام کے نقائص دور کرنے کے لیے زیادہ سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو کہا گیا ہے کہ انصاف کی ضروریات کا ایک جائزہ مرتب کیا جائے، نیز معلومات و اطلاعات کے ذخیرے کو بہتر اور نظامِ انصاف کی نگرانی اور تجزیے کے افعال کو مستحکم کیا جائے تاکہ عوام کی انصاف کی ضروریات کو موثر طور پر بروقت اور منصفانہ انداز میں پورا کیا جائے۔ ہمارے سامنے اگلا سوال قوانین کے معیار کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیاہے ، ایک غیرمنصفانہ ریاست اور معاشرہ غیر مستحکم اور ناپائیدار ہوتا ہے۔ لہٰذاہمیں قانون کی بالادستی کو ایک سماجی قدر کے طور پردیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قوانین کی ساخت ایسی ہو کہ ان کے مفاد سب تک پہنچنے کے قابل ہوں۔ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ کیا قوانین اس آئینی تقاضے کو پورا کررہے ہیں جو برابری کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ہمیں قانونی پالیسی کا عمیق مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون سازی کے عمل کے بارے میں آگاہی ہو، ہم قوانین کے ممکنہ اور حقیقی اثرات سے واقف ہوں؛ اور یہ ممکن بناسکیں کہ تمام قوانین غیرجانبدارانہ اور منصفانہ ہوں تاکہ ان کی قبولیت اور جواز کو برقرار رکھا جاسکے؛ اور ہم یہ بھی دیکھ سکیں کہ تمام قوانین کا منصفانہ اطلاق بھی ہورہا ہے۔ ہمیں ان نتائج کے بارے میں بھی واضح ہونا چاہیے، جو قانون کی بالادستی کے باعث ممکن ہوتے ہیں۔

خوش قسمتی سے، نظمِ نو کے قیام کے لیے ، ہمارا آئین وہ تمام تقاضے پورے کرتے ہیں جو مساوات پر مبنی ریاست کے قیام کے لیے درکار ہیں اور جن کے بارے میں قراردادِ مقاصد، آئین میں بنیادی حقوق کے باب اور حکمت عملی اصولوں میں بارہا تذکرہ کیا گیا ہے۔ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ ہمارے قوانین کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کیا ان میں اتنی استعداد ہے کہ وہ آئینی تقاضوں کے مطابق ہرایک شہری کی ان تک رسائی ہو۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے چونکہ ہم قانونی مسودہ سازی کی خاطر خواہ استعداد پیدا نہیں کرسکے،اس لیے ہمیں آئینی پالیسی اور مقاصد کو ریاستی حکمت عملی اور قانون سازی میں شامل کرنے میں بھی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی عمل داری کا تصورتب ہی اپنا اخلاقی اور معاشرتی جواز حاصل کرتا ہے جب وہ عوام کی جائز ضرورتوں کو منصفانہ طور پر پورا کرے۔

آئین میں لکھا ہے کہ "بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف" (تمہید)اور جس کی پالیسی اصولوں میں مزید تشریح کی گئی ہے، جو دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کے فروغ کا جواز مہیاکرتے ہیں (آرٹیکل ۳۷) اور خوش حالی کو ممکن بناتے ہیں (آرٹیکل ۳۸)۔ یہ عوام کی وہ جائز توقعات ہیں جو وہ اپنی ریاست سے رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے آئین میں حقوق کے حوالے سے خصوصی سفارشات موجود ہیں جن کے ذریعے اس ضمن میں کم سے کم قابلِ قبول طرزِ عمل کے معیار قائم کیے گئے ہیں،جیسا کہ آرٹیکل ۸ میں موجود ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون، پالیسی یا قدم جو فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، نفی یا توہین کرتا ہو، غیر موثر اور باطل قرار پائے گا۔مگر ہمارے سامنے ایسے واقعات بھی موجود رہے ہیں جن میں طے شدہ بنیادی حقوق کے تناظر میں سرکاری پالیسی کا جائزہ لینا ضروری ہوگیا تھا جس میں عدالت کا قیمتی وقت صَرف ہوا۔

اس نوعیت کی مقدمے بازی سے دوْر رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری پالیسیوں اور طرزِ عمل کو ان حدود کے دائرے میں رکھا جائے جنہیں بنیادی حقوق کی بحث میں طے کردیا گیا ہے۔ قانون سازوں اور قوانین کا مسودہ لکھنے والوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے تیار کردہ قوانین بنیادی حقوق سے ہم آہنگ اورایسے پالیسی اصولوں کو فروغ دیں جو قانون کی بالادستی کے لیے نہایت ا ہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ برابری اور مساوات اس منصفانہ معاشرے کے قیام کا اہم جزو ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا ، اور جس کی ضمانت آئین کی آرٹیکل۵ ۲میں دی گئی ہے؛ جو کہتا ہے کہ "قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور انہیں قانون کے تحت یکساں تحفظ حاصل ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امیر اور غریب یا صاحبِ اختیار اور عام فرد کے درمیان کوئی تخصیص روا نہیں رکھی جاسکتی۔

خصوصی استحقاق، مستثنیات اور مراعات مخصوص حالات میں ہی کم سے کم اور مبنی برجواز ہوں۔مگر مجھے افسوس ہے کہ ہم ایسے غیرمنصفانہ قوانین و ضوابط کا فروغ دیکھ رہے ہیں، جوعوام کو حاصل بنیادی انسانی حقوق کے تحت طے کردہ معیار سے ہم آہنگ نہیں ہیں؛ اور انصاف اور ایمان داری پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچارہے ہیں، جس سے ایک جانب ان کی تنہائی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب خود ریاست اور معاشرے میں شکست و ریخت کا عمل بڑھ رہاہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی اور جرم پر استوار موجودہ کلچر،لاقانونیت اور قانون سے ماورائیت کو فروغ دے رہا ہے؛ ریاست کے استحکام کے علاوہ ریاستی اداروں پر اعتماد اور ان کے وجود کے جواز، اور سب سے بڑھ کر، پورے سماجی نظام کے لیے شدید خطرات پیدا کررہا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیاہے ، غیر منصفانہ ریاست اور معاشرہ اپنی ساخت میں غیر مستحکم ہوتے ہیں، یہ طویل عرصہ باقی نہیں رہ سکتے، نہ ہی یہ ہماری نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں، جبکہ شہرکاری (اربنائزیشن) اور عالم گیریت (گلوبلائزیشن) جیسے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی یہ ناکافی ہیں۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ جب ریاست کے باشندے خود کو ریاست کی مساوی اکائی تصور نہیں کرتے اور خود کو معاشرے کا حصہ محسوس نہیں کرتے، تو یہ احساس ریاست اورمعاشرے کے اجزائے ترکیبی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے ، جیسا کہ ہم اس تنہائی کو سیاست، معیشت اور قانون کے دائروں میں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔اس بنا پر یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اس سیاسی معاہدے کو وسعت دیں جس کے ذریعے ترقی، عوامی اداروں اور خدمات تک رسائی، قانونی تحفظ اور انصاف میں سب کی شمولیت کو بڑھا یا جاسکے۔

جیسا کہ آئین میں لکھا ہے، یہ " عوام کے منتخب نمائندوں" کی اولین ذمے داری ہے کہ آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کیا جائے، تاکہ مفادِ عامہ اور عمومی بہبود کے تصورات پر مبنی ایسے اقدامات اٹھائے جاسکیں جن سے عوام کے جان و مال اور مفادات کا تحفظ اور فروغ ممکن ہو۔ اس مرحلے پر میں آئین اور قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کے لیے نگرانی اور جائزے کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ریاست ایک بہت نازک سے احساس پر استوار ہوتی ہے جسے اداروں پر اعتماد کہتے ہیں۔ ہمیں آپس میں ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا ہوگا تاکہ اقدار اور سمت کے بحرانوں سے نمٹ سکیں؛ اور ان اداروں اور قوانین کا نفاذ کرسکیں جن کا میں تذکرہ کرچکا ہوں۔ وہ آئین اپنے وجود کا جواز کھو دیتا ہے جس کو مضبوط ریاست کا سہارا نہیں ملتا؛ اور یوں پورا سماج ہی شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے ، جس کی بنیاد پر ریاست ازخود استوار ہوتی ہے۔

اسی لیے ہمیں ایک قومی سوچ کی ضرورت ہے تاکہ قانون کی بالادستی کو ممکن بناسکیں۔انہوں نے کہا کہ اپنی تاریخ کے اس اہم موڑ پر، ہمیں سنجیدگی سے ان عوامل اور چیلنجوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو موثر ریاست اور معاشرے کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کس طرح ہم ان عوامل اور چیلنجوں کامقابلہ کرکے اپنی ریاست اور معاشرے کو مستحکم کرسکتے ہیں۔

ہمیں ڈیرن اتچی موغلو (Daren Acemoglu) اور جیمز اے رابنسن(James A. Robinson) جیسے افراد کی تحریروں سے سبق لینا ہوگا جنہوں نے اپنی کتاب "اقوام کیوں ناکام ہوتی ہیں: طاقت، خوش حالی اور غربت کے مآخذات" (2012 ) میں قانون کی بالادستی میں ریاستی اداروں کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔یا حال ہی میں رابرٹ پٹنم (Robert Putnam)کی کتاب\ "ہمارے بچے: امریکی خواب کا بحران" (2015 ) کو دیکھنا ہوگا جس میں مصنف نے مواقع تک رسائی اور سماجی معمولات میں عدم مساوات کے اثرات کا تفصیل سے تجزیہ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب ہم قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، تو ہم درحقیقت اپنے شہریوں کے حقِ حیات، خوش حالی اور عزتِ نفس کی بات کرتے ہیں، جن کو ہمارا آئین ناقابلِ تنسیخ حق تسلیم کرتا ہے(آرٹیکل( 1)14)اور جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سپریم کورٹ نے حقِ حیات کے بارے میں شہلا ضیاء کیس میں پہلے ہی فیصلہ سنادیا ہے لیکن فوجداری نظام انصاف کی کارکردگی میں ہمیں زندگی کی وہ مرکزیت نظر نہیں آتی۔

اگرچہ محتسب کا ادارہ 1983ء سے کام کررہا ہے، اس کے باوجود اب تک نہ تو موثر نظم و نسق کے معیار طے ہوسکے ہیں اور نا ہی بدانتظامی کے خاتمے کے لیے کوئی قومی لائحہ عمل مرتب کیا جا سکاہے جس کی وجہ سے عوام کے حقوق کی شب و روز نفی ہورہی ہے۔آئین کے آرٹیکل 10اے اور انفارمیشن کمیشنز کے قیام کے باوجود شفافیت کے معیارات موجود نہیں۔ اس کی وجہ سے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی بدعنوانی اور جرم بلا روک و ٹوک جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان امور سے نبرد آزما ہونے کے لیے محض عدلیہ کی جانب سے ہی نگرانی اورجائزہ کافی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نگرانی کے نظام، نمائندہ حیثیت ، قانون سازی اور بجٹ سازی کی صلاحیت کو استعمال کرے تاکہ نظامِ انصاف کے معیار اور رسائی کو جائزے، سرمایہ کاری اور ندرت کے ذریعے بہتر بنایا جاسکے۔

یہ پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عدالتی نظام کی معاونت سے جو آزاد ہو اور اپنے جائزے، توضیح اورنتائج اخذ کرنے میں مقصدیت پرعمل پیرا ہو، ایسے اقدامات اٹھائے جن سے قانون اور انصاف کی خدمات کا معیار بلند ہو تاکہ آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جاسکے۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ ہم آئین پاکستان کے تنا ظر میں ایک جدید اور روشن خیال پاکستان کے قیام کے لیے ان تمام ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ مفادِ عامہ کے تحفظ کے لیے ، پاکستان میں قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کی خاطر، ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دے تاکہ اس عزم کی تکمیل ہوسکے جس کا نام پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان سے خطاب کے لیے مدعو کرنے پر ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح میں نے پاکستان میں قانون کی بالادستی کے لیے اپنا حصہ ڈالا ہے جو ہم سب پرلازم ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ اس سعی میں عدلیہ کو اپنا شریک کار تصور کریں گے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں کہ عدلیہ کے حوالے سے ناامیدی کا اظہار کریں۔ ہمیں اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ ہمارے ہاں اہم اور مستند نظام عدل میں موجود ہے جس میں بہتری کی گنجائش تو موجود ہے لیکن انصاف کی فوری فراہمی میں رکاوٹ موجود ہونے کا تصور درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک اور بالخصوص دیہی آبادی کو مختلف مسائل کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ اور دوسرے تعلیم کا فقدان ہے۔ ہیمں آج بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تعیلم کے معیار کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے جس سے تمام ادارے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے کام کریں اور ملک تیزی سے ترقی کرے۔

انہوں نے کہا کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کا نظام 1908ء کا پرانا نظام ہے‘ اگر مقدمات کے خلاف اپیل کے حوالے سے کوئی چیز سامنے آتی ہے تو اس کی ذمہ دار بھی عملدرآمد کرانے والی اتھارٹی ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی سہولت اگر ختم کردی جائے تو اس سے سنگل بنچ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں بڑھ جائیں گی اور مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں اپنے سسٹم کو موثر بنانے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔