آسٹریلیا کی شاہی بحریہ میں ایک مسلمان خاتون کپتان کے عہدے پر فائز

مصری نژاد آسٹریلوی خاتون مونا شینڈی کو حال ہی میں آسٹریلوی بحریہ کی اسلامی مشیر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا گیا ہے

اتوار 8 نومبر 2015 12:24

آسٹریلیا کی شاہی بحریہ میں ایک مسلمان خاتون کپتان کے عہدے پر فائز

سڈنی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 نومبر۔2015ء) آسٹریلیا کی شاہی بحریہ میں ایک مسلمان خاتون کپتان کے عہدے پر فائز ہیں،جنہیں آسٹریلوی رائل بحریہ کی حجاب پہنے والی پہلی مسلمان کپتان بتایا گیا ہے۔مصری نژاد آسٹریلوی خاتون مونا شینڈی رائل بحریہ پر ہتھیاروں کی الیکٹریکل انجینئر بھی ہیں، انھیں حال ہی میں آسٹریلوی بحریہ کی اسلامی مشیر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا گیا ہے۔

مونا شینڈی شاہی بحریہ کیاسلامی یونیفارم اور سر پرحجاب پہن کر بحریہ کے جنگی جہازوں پر اپنے فرائض انجام دیتی ہیں جبکہ ایک ماں کی حیثیت سے وہ گھر پر تین بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری بھی پوری کرتی ہیں۔خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھی جانے والی مونا شینڈی کو ان کی ثقافتی خدمات کے اعتراف میں آسٹریلیا کی معروف براڈ بینڈ سروس ٹیلسٹرا کی جانب سے گذشتہ ہفتے نیو ساوتھ ویلز بزنس وومن آف دا ائیر2015ء کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔

(جاری ہے)

مونا شینڈی مصر میں پیدا ہوئیں ان کے والدین نے مصر سے سڈنی ہجرت کر کے آئے تھے مونا کی عمر چودہ سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تاہم سخت مشکلات کے باوجود مونا اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہیں۔ ہتھیاروں کی الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مونا پہلی بار 1989 میں ایچ ایم اے ایس کینبرا نامی جنگی جہاز پر سوار ہوئی تھیں جہاں انھوں نے بحرالکاہل میں میزائل کو ٹیسٹ کرنا تھاتاہم 26 سال کی عمر میں مونا نے رائل بحریہ کے ساتھ اپنے کیرئیر کی شروعات کی اور کپتان کی حیثیت سے اپنے پہلے دورے کے بعد ان کی شادی ہو گئی۔

اخبار ٹیلی گراف سے ایک انٹرویو میں مونا شینڈی نے کہا کہ اسلامی ثقافتی امور پر اسٹریٹیجک مشیر کی حیثیت سے ان کا کام دفاعی ارکان کے درمیان اسلامی روایات اور ثقافتی حساسیت کے بارے میں تفہیم پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمان اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون کو بہتر بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو دفاعی قوت میں شامل ہونے کیلیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں اس وقت دفاعی قوت میں مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ سو ہے جن میں سے آسٹریلوی بحریہ کی دفاعی فورس کے اہلکاروں میں سے صرف 27 افراد کی شناخت مسلمان ہے۔

بحریہ میں صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خواتین انجنیئرز کو کسی بھی کام کے ماحول میں اپنی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے ابتدائی طور پر زیادہ مشکل کام کرنا پڑتا ہے خاص طور پر انھیں یہ دکھانا پڑتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ٹیم کی ایک قابل قدر رکن ہیں اور ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔مونا شینڈی نے بتایا کہ رمضان المبارک میں ان کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں خاص طور پر جب وہ روزے سے ہوتی ہیں تو اپنے ساتھیوں سے امید کرتی ہیں کہ ان کے حصے کا کھانا بچا لیا جائے تاہم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کے پاس کھلے سمندر میں افطاری کے نام پر خشک ٹونا مچھلی کے چند ڈبے ہوتے ہیں۔

مونا کہتی ہیں کہ بحری جہازوں پر دو سے چھ ماہ کے دورے کیساتھ دوسالہ دورانیے کی سروس ہوتی ہے اور چھ ماہ کا عرصہ کسی بھی زبان میں ایک ماں کے لیے اپنے بچوں سے دوری رکھنے کے لیے ایک بڑی قربانی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اپنے خاندان کے تعاون کے بغیران کا بحریہ کی ملازمت کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔

متعلقہ عنوان :