امت چاروں اطراف سے آفات کا شکار ، بد اعمالیوں کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں ،ہر آدمی اپنا محاسبہ کرے‘ عالمی تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر

دین کو زندگیوں میں لانے کے لئے اس کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے ،تب جاکر یہ ہمارے سینوں میں اترے گا ،دنیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا وہ تباہ وبرباد ہوگیا دین پر چلنے سے اللہ پاک کی قربت حاصل ہوگی ،جب اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائیں گے تو کامیابی ہی کامیابی ہے ،اللہ کے ہاں دنیا کی کوئی قدرو اہمیت نہیں آخری روزمختلف نشستوں سے امیر جماعت حاجی عبدالوہاب ، مولانا محمد اسماعیل ،مولانا محمد عبداللہ،مولانا خورشید و دیگر کا خطاب

اتوار 8 نومبر 2015 15:13

رائے ونڈ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 نومبر۔2015ء ) عالمی تبلیغی اجتما ع آہوں، سسکیوں اوررقت آمیز دعاکے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔آخری روزمختلف نشستوں سے خطاب کرتے امیر جماعت حاجی عبدالوہاب ، مولانا محمد اسماعیل ،مولانا محمد عبداللہ،مولانا خورشید ودیگرعلماء نے کہا کہ 7ارب انسانوں کی رشد وہدائیت کی ذمہ داری ہر کلمہ گو مسلمان پر ہے ،اپنی نفسی خواہشات پر قابو پاکر ہی اصل مقصد حاصل ہوتا ہے ،ہر انسان کو اپنے سے افضل اور قیمتی جاننا ہے اس کی عزت واحترام کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے ۔

اللہ رب العزت سے خشوع و خضوع کے ساتھ مانگنا ہے اپنے معاملات کو اسلامی بنا ناہے ،نبی پاک ﷺکے طریقے کے مطابق ڈھالنا ہے ،نماز کی پابندی اور اعمال کی بہتری کے لئے محنت کرنا ہوگی ۔

(جاری ہے)

آقائے کائنات ﷺکے حکم پر صحابہ اکرام اپنے گھروں کو چھوڑا اسلام کی دعوت کولے کر پوری دنیا میں پھیل گئے ،آج ہم تک اسلام جو پہنچا ہے انہی کی وجہ سے پہنچا ہے ،اب اس دعوت کے کام کاکرنا ہم پر واجب ہے اس کے لئے نکلا جائے ،اذان کا جواب دینے کی اتنی فضلیت ہے کہ غفلت کا شکار مسلمان لاکھوں نیکیاں ضائع کررہا ہے ،اپنی عادات کو درست کرنا ہوگا ،اپنی زندگیوں کو سادگی میں لانا ہے ۔

آج کا مجمع اللہ پاک سے یہ عہد کرے کہ ہم نماز کی پابندی کریں گے ،کسی مسلمان کو دل آزاری نہیں کریں ،کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے ۔مقررین نے کہا کہ دین کیا ہے؟ ،نبی پاک ﷺکی مبارک زندگی کے مطابق زندگی گزارنا ہی دین ہے ،دین کو زندگیوں میں لانے کے لئے اس کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے ،تب جاکر یہ ہمارے سینوں میں اترے گا ۔انسان اپنے کاروبار اور معاملات کے لئے شہر اور ملک چھوڑتا ہے حالانکہ یہ سراسر خسارے والا راستہ ہے اصل راستہ وہ ہے کہ جس پر چل کر ہماری دنیا بھی بن جائے اور آخرت بھی ،دین اصل ہے دنیا اصل نہیں ہے ،دنیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا وہ تباہ وبرباد ہوگیا ،دین پر چلنے سے اللہ پاک کی قربت حاصل ہوگی ،جب اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائیں گے تو کامیابی ہی کامیابی ہے ۔

اللہ کے ہاں دنیا کی کوئی قدرو اہمیت نہیں ،دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے ،دنیا موت پر چھوٹ جاتی ہے ،آج کا انسان دنیا کے کام سیکھتا ہے اس کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے لیکن دین پر محنت نہیں کرتا دین سیکھنے سے آئیگا ۔مخلوق سے ہونے کا یقین اور اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہی درحقیقت اس ناکام مسلمان کا اصل روگ اور بیماری ہے ،اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے اللہ سے ناطے کو جوڑنا ہوگا ۔

بے حیائی اور اسراف کو ترک کرنا ہوگا ،اللہ کے ذکر کرنے سے شفاء ہوتی ہے ،دنیا کا ذکر کرنے سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ،ذکر اذکار کی محافل بپا کرنا ہوں گی ۔آج امت چاروں اطراف سے آفات کا شکار ہیں ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہیں ہر آدمی اپنا محاسبہ کرے، اپنے گریبان میں جھانکے، سر سے لیکر پاؤں تک آقائے کائنات ﷺکے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالیں دنیا و آخرت کی کامیابی یقینی ہے ۔

تبلیغی اجتماع کے آخری روز لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مزید کہا کہ دنیا دارالعمل ہے یہاں جو کچھ بوئیں گے وہی کل کو کاٹیں گے ،جتنی دیر یہاں رہنا ہے اتنی یہاں کی محنت کریں ،آخرت کی زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے اس لئے وہاں کی تیاری کریں ،بنی نوع انسان مال ودولت کی حرص و حوس میں اصل ذمہ داری سے غافل ہوچکا ہے ،دنیا کی رنگینی نے اصل کام سے توجہ ہٹا دی ہے ،اپنی زندگی کی سانسوں کو قیمتی جانتے ہوئے انکو دین کی خدمت میں وقف کریں ،آج کا مسلمان وہ وعدہ بھول چکا ہے جو عالم ارواح میں رب کائنات سے کرکے آیا ہے ،اپنی توانائیوں کو فضول سرگرمیوں میں صرف کرنے کی بجائے اس کو آخرت کی تیاری میں لگائیں ،دانا اور عقل مند وہ ہے جو آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کرے، دنیا کی زندگی آزمائش اور امتحانوں سے بھری پڑی ہے ،بے حیائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا ،امت کو خرافات او ر پریشانیوں سے نجات کے لئے سرور کائنات ﷺکے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہوگا ،نجات اور کامیابی کاراستہ ہمیں اللہ کے نبی ﷺبتا گئے ہیں ،ہم جان بوجھ کر اپنی جانوں پر ظلم کرکے دینی تعلیمات سے روگردانی کرکے ذلت ورسوائی کے اسباب پیدا کررہے ہیں ۔

آج ہماری اولادیں نافرمان اور کاروبار سے برکتیں اور رحمتیں اٹھ گئی ہیں ہمارے گھروں کا ماحول غیر اسلامی ہوچکا ہے ،آج کا مسلمان اپنے بچے کے روشن مستقبل کے لئے فکر مندہے ،اسکو اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہے جبکہ دینی تعلیم کو پس پشت ڈالا جارہا ہے ۔کامیاب انسان وہی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر بھی کرے ،ہر انسان کو جنت میں لیجانے کی تڑپ اور فکر سینوں میں پیدا کرنا ہوگی ،تبلیغی جماعت کی ترتیب پہلے سہ روزہ ،پھر عشرہ پھر چلہ لگا کر دین کو سیکھا جائے ہمیں زندگی کے دیگر معاملات کی طرح تبلیغ کے لئے وقت نکالنا چاہیے اس سے ایک تو دین کی سوجھ بوجھ آئیگی دوسرا زندگی کا اصل مقصد واضح ہوگا۔

متعلقہ عنوان :