سپریم کورٹ زین قتل ازخود نوٹس کیس، لواحقین اور استغاثہ کے تمام گواہ طلب

منگل 10 نومبر 2015 11:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔10 نومبر۔2015ء) سپریم کورٹ میں زین قتل ازخود نوٹس کیس میں لواحقین اور استغاثہ کے تمام گواہوں کو طلب کر لیا گیا ۔عدالت نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ گواہوں کی عدالت میں پیشی کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے ۔ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ گواہوں اور مدعی کو آئندہ سماعت پر مکمل سیکورٹی کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ گواہوں کو تحفظ کیوں نہیں دیا گیا اور اس طرح کے حالات میں پولیس نے اپنا کردار کیوں نہیں ادا کیا ۔ گواہ کیسے منحرف ہوئے ۔ ٹرائل کے دوران مدعی نے تحفظ کے لئے درخواست بھی دائر کی تھی اہم معاملہ میں آپ کیسے لاعلم رہ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ اگر گواہ منحرف ہو گئے تو آپ کو ملزمان کی بریت کو کیسے چیلنج کریں گے جبکہ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا ہے کہ مصطفیٰ کانجو سمیت ملزمان کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا رہی ہے ۔

گواہوں میں پرائیویٹ اور سرکاری دونوں طرح کے گواہ شامل ہیں ۔ منگل کے روز جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اس دوران آئی جی پنبجاب مشتاق سکھیرا سمیت اعلیٰ افسران عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ گواہوں کے منحرف ہونے اور مدعی کی جانب سے درخواست واپس لیے جانے کی بنا پر ملزمان کو رہا کیا گیا ۔اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی پنجاب سے کہا کہ مدعی نے آپ کو تحفظ کے لئے درخواست دی تھی اس پر آپ نے کیا کیا ؟ اس پر آئی جی پنجاب نے درخواست کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی کوئی درخواست دائر ہی نہیں ہوئی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ درخواست دائر ہو اور آپ کو علم ہی نہ ہو یہ انتہائی اہم معاملہ ہے اس سے آپ کیسے لاعلم رہ سکتے ہیں ۔آپ کو چاہئے تھا کہ اپنا کردار ادا کرتے تو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ گواہ پیسے لے کر منحرف ہوئے ہیں ان سے سادہ کاغذ پر دستخط لئے گئے تھے ۔

اس پر جسٹس منظور احمد ملک نے پوچھا کہ گواہوں میں کس طرح کے لوگ شامل ہیں اور اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ گواہوں میں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں طرح کے گواہ شامل ہیں اس پر عدالت نے ایک اور سوال کیا اور پوچھا کہ کیا سرکاری گواہ عینی شاہد ہیں اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ عینی شاہد نہیں ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رہے ہیں اور ان کے حوالے سے جلد فیصلہ حاصل کر لیں گے ۔ اس پر عدالت نے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو حکم دیا ہے کہ مدعی استغاثہ اور مقتول کے ورثاء کے گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جائے ۔ عدالت نے گواہوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔

اس دوران پولیس نے اپنی ایک رپورٹ بھی پیش کی جس میں زین قتل کے حوالے سے اب تک کی پیشرفت اور دیگر معاملات بارے بتایا گیا تھا ۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں چونکہ مدعی خود اس مقدمے کو آگے چلانے میں رضامند نہیں تھے اسی وجہ سے ملزموں کو رہائی ملی ۔تاہم ان کی بریت کے حوالے سے معاملے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رہے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ جو کام آپ کو پہلے کرنا ہوتا ہے وہ آخر میں کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو چاہئے تھے کہ جیسے ہی یہ معاملہ پیش آیا تھا اور ملزمان کو بری کیا گیا تھا آپ ہائی کورٹ میں اس کی اپیل دائر کرتے ۔

اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے یقین دلایا کہ ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل جلد دائر کر دی جائے گی اس کے لئے وقت دیا جائے۔ اس عدالت سماعت 16 نومبر تک متوی کر دی ۔واضح رہے کہ ساتویں جماعت کا طالب علم زین قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے قتل میں مصطفی کانجو اور ان کے محافظوں پر مبینہ طور پر الزام ہے تاہم گواہوں اور مدعی اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے جس کی وجہ سے مذکورہ بالا ملزمان بری ہو گئے تھے ۔