درآمدی اشیاء پر 1فیصد اضافی ڈیوٹی اور رعائیتیں ختم کرنے سے درآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوگی،راجہ وسیم حسن

منگل 10 نومبر 2015 17:46

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔10 نومبر۔2015ء) تاجر رہنما وانجمن تاجران لوہا مارکیٹ شہید گنج (لنڈا بازار)لاہورکے نائب صدرراجہ وسیم حسن نے ایف بی آر کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پوری رکنے کیلئے40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے حوالے سے سیلز ٹیکس سپیشل پروسیجرز کے ذریعے رعایتی جنرل سیلز ٹیکس اور سیلز ٹیکس سے چھوٹ ختم کرنے ، اشیاء کی درآمد پر ایک فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی عائد کرنے ، ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح دس فیصد بڑھا کر پندرہ فیصد کرنے سمیت ریگولیٹری 10فیصد سے15فیصد بڑھانے سمیت دیگر تجاویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ درآمدی اشیاء پر1فیصد اضافی ڈیوٹی اور رعائتیں ختم کرنے سے درآمدات میں کمی کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت قرضوں کے حصول اور آئی ایم ایف کی شرائط پر40ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ صنعتی شعبہ پر ڈالنا چاہتی ہے جس سے صنعتی ترقی پر منفی اثرات پڑیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مہنگی بجلی و دیگر وجوہا ت کی بناء پر پہلے ہی ملکی درآمدات میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ۔اب مزید ٹیکسوں کے بوجھ سے درآمدات میں مزید کمی سے صنعتکار متاثر ہوگا ۔

راجہ وسیم حسن نے کہا کہ درآمدات پر ٹیکسوں میں اضافہ سے درآمدی اشیاء مہنگی ہوجائیں گی اور بیرون ملک میں مہنگی اشیاء کے باعث پاکستانی اشیاء کی طلب میں کمی سے درآمدات میں مزید کمی واقع ہوگی ۔ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ اور عوام متاثر ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ سے بجلی گیس کے بلوں سمیت دیگر مدوں میں انڈسٹریز پر اضافی بوجھ پڑے گا انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر 40ارب کے تمام کے تمام ٹیکس صنعتکاروں پر لگارہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے اوریہ فیصلہ صنعتی شعبہ کی تنزلی کا باعث بنے گا۔

کسٹم ڈیوٹی وریگولیٹری ڈیوٹی میں ردوبدل کیلئے ایس آر او568(1)/2015اور ایس آر او568(1)/2015میں ترمیم منی بجٹ ہوگی۔جس کے معیشت پر منفی اثرات رونما ہونگے۔

متعلقہ عنوان :