عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش کے منفی اثرات اکنامک کاریڈور پر پڑیں گے ،اسفندیارولی خان

جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سانحہ پشاور ،دہشتگردی کیخلاف ضرب عضب شروع کرنے سے بڑھی ہے،سربراہ عوامی نیشنل پارٹی کا انٹرویو

منگل 10 نومبر 2015 22:17

پشاور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔10 نومبر۔2015ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سربراہ اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کی تعمیر اور کامیابی کیلئے لازمی ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔ اگر خطے میں جاری کشیدگی اور دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف یہ کہ پورا خطہ عالمی قوتوں کی باہمی چپقلش کا مرکز بن جائیگا بلکہ داعش جیسی خطر ناک اور پرتشدد قوت کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں داعش کا وہ روپ سامنے آ جائیگا کہ لوگ طالبان کے رویے اور مظالم بھی بھول جائیں گے۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے مستقل قیام کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اس مقصد کیلئے چین اپنا ایک بنیادی کردار ادا کرے۔

(جاری ہے)

اپنی رہائش گاہ پر ایک نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو کے دوران اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کے برعکس چین اپنے کردار کے حوالے سے جہاں ایک طرف ایک غیر متنازعہ کردار کا حامل ہے بلکہ اس کو سنکیانک اور بعض دیگر علاقوں میں خود انتہا پسندی کا بھی سامنا ہے۔

عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش اور کشیدگی کے اثرات نہ صرف خطے کے حالات بلکہ کاریڈور کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں اور اگر امریکہ چین اور روس ’ امریکہ کے درمیان بعض معاملات پر کشیدگی برقرار رہی تو اس سے نہ صرف یہ کہ دونوں اطراف کے پشتون مزید تباہ ہو جائیں گے بلکہ کاریڈور کا منصوبہ بھی خطرے سے دوچار ہو جائیگا کیونکہ کاریڈور نے افغانستان سے ہو کر وسط ایشیاء تک جانا ہے اور اگر افغانستان میں امن سے محروم ہو گا تو اس مں صوبے کا مستقبل سوالیہ نشان بن جائیگا اس لیے لازمی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود بداعتمادی اعلیٰ سطحی رابطوں ’ ملاقاتوں کے ذریعے ختم کی جائے بلکہ چین بھی ایک بڑی علاقائی قوت کے طور پر امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں خدشہ ظاہر کیا ’ لگ یہ رہا ہے کہ بعض عالمی قوتیں داعش اور دیگر کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے پشتون سر زمین کو پھر سے میدان جنگ بنانے کی خطر ناک پالیسی پر گامزن ہیں اور افغانستان میں جاری کشیدگی اس پالیسی کی جانب اشارہ کر رہی ہے جس پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ اگر مذاکرات کی کوششیں شروع ہوئیں یا ناکامی سے دوچار ہوئی تو خطہ مزید تباہی کی لپیٹ میں آجائے گا اور داعش بھی قوت پکڑ لے گی ایسی صورت میں داعش کی تباہی طالبان کی طرح صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آجائیگا۔

اُنہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں یہ خطرہ شدت اختیار کر جائیگا کہ افغانستان لسانی بنیاد پر تقسیم ہو جائے کیونکہ کشیدگی کی صورت میں ازبک ’ تاجک ’ ترکمن اور ہزارہ اپنے اپنے پڑوسی ممالک کی جانب دیکھیں گے تو افغانستان کے پشتونوں کی بھی مجبوری ہو گی کہ وہ ہماری طرف دیکھیں اور ایسی صورت میں پاکستان کے پشتون اپنے بھائیوں سے لاتعلق نہیں رہ پائیں گے۔

اُنہوں نے خطے میں دہشتگردی کے معاملے پر کئے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ80 کی دہائی میں افغانستان میں امریکی زیر قیادت جس جنگ کا آغاز کیا تھا اس میں افغانوں کو تاریخ میں پہلی بار قوم پرستی اور افغانیت کی بجائے ان کو مذہب کے نام پر لڑایا گیا جس کے نتائج ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اگر امریکہ نے نجیب اﷲ حکومت کے بعد افغانستان سے لا تعلقی اختیار نہ کی ہوتی تو نہ طالبان وجود میں آتے ، نہ القاعدہ قائم ہوتی اور نہ ہی اب داعش وجود میں آتا۔

اُنہوں نے کہا کہ طالبان نے اے این پی کو بھی اس لیے نشانہ بنایا کہ ان کو علم تھا کہ اے این پی ہی مزاحمت کر سکتی ہے ۔ مزاحمت کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے پشتون سوسائٹی میں حجرے اور مسجد کے کردار بدل دئیے اور وہ ہماری روایات ، تاریخ ، ثقافت اور سیاست پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے بعض عالمی طاقتوں کے علاوہ عرب ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان ریاستوں نے نان اسٹیٹ ایکٹرز اور بے پناہ مالی امداد کے ذریعے ہمارے خطے کو خطرات سے دوچار کیا ۔

یہ بہت ضروری ہے کہ تمام ریاستیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کا خاتمہ کریں جبکہ پاکستان اور افغانستان کو نواز شریف ، راحیل شریف ، ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ آپس میں بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کرنے کے علاوہ بعض بنیادی خدشات ، شکایات کے ازالے کو یقینی بنائیں۔ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پورے مینیڈیٹ کے ساتھ دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جائے۔

ڈیورنڈ لائن کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ملا عمر نے ایک مرتبہ نصیراﷲ بابر کو کھانے اور کمرے سے یہ کہہ کر اُٹھایا اور نکالا تھا کہ اُنہوں نے ان سے ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کشمیری عوام کے دباؤ پر لائن آف کنٹرول کو انٹر نیشنل باؤنڈری تسلیم نہیں کر سکتا تو ڈیورنڈ لائن کو کیسے انٹرنیشنل سرحد تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

میرے خیال میں اس معاملے پر اصرار یا تکرار کی فی الحال ضرورت ہی نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان اگر چاہتا تو 65 اور 71 کی جنگوں کے دوران پاکستان کیلئے شدید مشکلات پیدا کر سکتا تھا مگر اس نے لا تعلقی اور تعاون پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان ، فاٹا ، دہشتگردی اور پشتون ایشوز پر اے این پی کی پالیسی قطعاً واضح ہے اور ہم تمام تر دباؤ، خطرات اور نقصان کے اپنے موقف اور جدوجہد پر قائم رہیں گے۔

اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پشتون قوم پرست پارٹیوں کا اتحاد یا انضمام وقت کی ضرورت ہے ہم نے چند برس قبل محمود خان اچکزئی کے ساتھ اتحاد کر کے کافی پیش رفت بھی کی تھی اور یہ بھی طے پایا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں پارٹیوں کے انضمام کا اقدام بھی اُٹھایا جائیگا ۔ تاہم بدقسمتی سے یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب 2008 کے الیکشن سے قبل محمود خان اچکزئی نے کسی رابطے اور مشاورت کے بغیر الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔

اُنہوں نے کہا کہ ان کی اب بھی کوشش اور خواہش ہے کہ تمام پشتون قوم پرست متحد ہوں تاکہ خطرات سے نمٹا جائے اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں ہے راحیل شریف کی مقبولیت سانحہ پشاور اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کے باعث بڑھی اور ان اسباب کو راحیل شریف کو خود بھی علم ہے۔