18 ویں آئینی ترمیم پر من وعن عملد رآمد ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، اس ترمیم کی منظوری کے بعدسفر حقیقی وفاق کی طرف گامزن ہے، سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کے چیئرمین سینیٹر میر حاصل بزنجو کااجلاس سے خطاب

منگل 10 نومبر 2015 22:46

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 نومبر۔2015ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات کے چیئرمین سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہاہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اہم پیش رفت تھی تواس پر من وعن عملد رآمد ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعدسفر حقیقی وفاق کی طرف گامزن ہے، 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد کنکرنٹ لسٹ پر بھی بحث شروع ہوئی تھی، 18 ویں آئینی ترمیم بہت پہلے منظور ہو جانی چاہیے تھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر کی گئی ،پارلیمنٹ کی کمیٹی وسائل کی برابر تقسیم اور اختیارات مکمل منتقل کرنے اور وفاق اور وزارتوں کے اثاثے بھی صوبوں کے حوالے کرنے کیلئے بنی ہے، اختیارات کی مکمل تفویض تک کمیٹی کے اجلاس مسلسل منعقد ہوا کریں گے ،چیئرمین کمیٹی نے آئل اینڈ کمپنیوں کی پیدوار خالص منافع بہبود کے استعمال فنڈز وسائل کی تقسیم ملازمتوں کے کوٹے کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہمی کی ہدایت دی جبکہ سیکرٹری کیبنٹ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہو گیا ، 18ویں ترمیم عمل درآمد کمیشن کے 68 اجلاس منعقد ہوئے جس میں طے ہوا کہ وفاقی ملازمین کو صوبوں میں بھجوایا جائے گا اور کسی بھی ملازم کو برخاست نہیں کیاجائے گا ،17 وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں 6 ہزار6 چھ سو 96 ملازمین کو صوبوں میں بھیجا گیا 50 ہزار 4 سو11 ملازمین وفاقی دفاتر میں رہ گئے ایک لاکھ 19 ہزار آئٹمز صوبوں کے حوالے کیے گئے 60 سے زائد وفاق کے پاس ہیں کل گاڑیاں1191 تھیں 717 وفاق کے پاس ہیں سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق کے باجود اسلام آباد کے مداخلت 18 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق کے باجود اسلام آباد کے مداخلت ہو رہی ہے سی سی آئی کا سیکرٹریٹ نہیں سہ ماہی اجلاس منعقد نہیں ہورہا وفاق کے اداروں میں صوبوں کی نمائندگی نہیں جی ڈی سی آئی کے بقایا جات ادا نہیں ہو رہے اور انکشاف کیا کہ وفاق کے اداروں میں درجہ چہارم سے اعلیٰ افسروں تک 60 فیصد بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

سینیٹ فنکشنل کمیٹی منتقلی اختیارات کااجلاس چیئرمین سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کی صدارت اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا ،چیئرمین کمیٹی اور سینئر سیاستدان سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا ء میں یہ کمیٹی اہم ترین کمیٹی ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اہم پیش رفت تھی تو 18 ویں آئینی ترمیم پر من وعن عملد رآمد ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حقیقی وفاق کی طرف سفر پر گامزن ہیں 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد کنکرنٹ لسٹ پر بھی بحث شروع ہوئی تھی 18 ویں آئینی ترمیم بہت پہلے منظور ہو جانی چاہیے تھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر کی گئی ۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی وسائل کی برابر تقسیم اور اختیارات مکمل منتقل کرنے اور وفاق اور وزارتوں کے اثاثے بھی صوبوں کے حوالے کرنے کیلئے بنی ہے اختیارات کی مکمل تفویض تک کمیٹی کے اجلاس مسلسل منعقد ہوا کریں گے کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری کیبنٹ نے آگاہ کیا کہ 102 ترامیم ہوئیں کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا عمل درآمد کمیشن کے 68 اجلاس منعقد ہوئے جس میں طے ہوا کہ وفاقی ملازمین کو صوبوں میں بجھوایا جائے گا اور کسی بھی ملازم کو برخاست نہیں کیاجائے گا۔

17 وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں 6 ہزار6 چھ سو 96 ملازمین کو صوبوں میں بھیجا گیا 50 ہزار 4 سو11 ملازمین وفاقی دفاتر میں رہ گئے ایک لاکھ 19 ہزار آئٹمز صوبوں کے حوالے کیے گئے 60 سے زائد وفاق کے پاس ہیں کل گاڑیاں1191 تھیں 717 وفاق کے پاس ہیں سیکرٹری کیبنٹ نے سینیٹر تاج حیدر کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او آئی بی صوبوں کو واپس ہو چکے پنجاب میں ای ٹی پی بی کو حوالے کرنے کا معاملہ اٹھایا جو سپریم کورٹ میں ہے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ ری اسٹچرنگ صوبوں کے حق میں ہے چوہدری تنویرنے کہا کہ وضاحت طلب باتوں اور ابہام کے خاتمے کے لئے اور زیادہ محنت سے کام کر کے آگاہ کیا جائے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اختیارات میں اثاثے اور بنیادی ڈھانچے بھی حوالے کیے جائیں سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ پاکستان آئل سیڈ ڈی آر اے اور ایچ ای سی کے ملازمین کے معاملات حل طلب ہیں چیئرمین کمیٹی سینیٹر حاصل بزنجو کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ڈرافٹ کابینہ کو نہیں بجھوایا گیا اجلا س میں سی سی آئی کا آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت میں منعقد نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث رہا اور قرار دیا گیا کہ سی سی آئی کا اجلاس جلد منعقد کیا جائے سینیٹ فنکشنل کمیٹی منتقلی اختیارات کے اجلاس سینیٹر الیاس بلور نے بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں گیس رائلٹی اور منافع کے نقصان کا معاملہ اٹھایا سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ حکومت تفویض اختیارات کے خلا ف نہیں محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہوگا اجلاس مسلسل منعقد ہونے چاہیں آخری این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ ادائیگی کی گئی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آئین میں 90 دنوں کے اندر سی سی ای کا اجلاس منعقد کرنے کی پابندی ہے اجلا س منعقد نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق کے باجود اسلام آباد کے مداخلت ہو رہی ہے سی سی آئی کا سیکرٹریٹ نہیں سہ ماہی اجلاس منعقد نہیں ہورہا وفاق کے اداروں میں صوبوں کی نمائندگی نہیں جی ڈی سی آئی کے بقایا جات ادا نہیں ہو رہے اور انکشاف کیا کہ وفاق کے اداروں میں درجہ چہارم سے اعلیٰ افسروں تک 60 فیصد بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کی گئی ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے آئل اینڈ کمپنیوں کی پیدوار خالص منافع بہبود کے استعمال فنڈز وسائل کی تقسیم ملازمتوں کے کوٹے کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہمی کی ہدایت دی سینیٹر کامل علی آغا نے اجلاس سے وفاقی وزیر صوبائی رابطہ کے چلے جانے پر کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد او رنگرانی کا م صوبائی رابطہ وزارت کا ہے اور وزیر ہی اجلاس سے اٹھ گئے ہیں اور کہا کہ روزانہ اجلاس منعقد کر کے وفاق کے خلاف پکنے والے زہر کو روکا جائے ورنہ 18 ویں آئینی ترمیم کی کاوشیں رائیگاں جائیں گی ۔

کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار نے آگاہ کیا کہ دنیا میں کرکٹ بورڈ ہیڈکوارٹر دارالخلافے سے باہر ہیں لاہور میں ہاکی ، فٹ بال اور اولمپک کے گراؤنڈ موجود ہیں قذافی سٹیڈیم بورڈ کے پاس لیز پر ہے دفاتر گراؤنڈ اور بین الاقوامی نیشنل ایکڈمی کے علاوہ 305 ملازمین کی رہائشی کالونی لاہور میں ہے اسلام آباد میں بورڈ کو جو زمین دی گئی تھی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی ہے اسلام آباد میں بورڈ کے پاس کوئی عمارت نہیں اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے اور بتایا کہ ملک بھر میں علاقائی اکیڈمیاں بنائی جارہی ہیں مزید 16 آئندہ پانچ سال میں بنا دی جائیں گئیں فاٹا آزاد کشمیر بلوچستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے کوچز بھیجیں گئے اکیڈمیاں بنائیں گے اور انکشاف کیا کہ انڈر16 کیمپ میں 20 کھلاڑیوں میں سے 4 ڈیرہ مراد جمالی سے ہیں جو پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے اور آگاہ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اربوں روپے کے ٹیکس ادا کر تا ہے اجلاس میں سفارش کی گئی کہ ملک بھر میں کرکٹ ایکڈمیاں قائم کی جائیں اور نئے کھلاڑیوں کیلئے بھی سہولیات فراہم کی جائیں اور فاٹا میں بھی کرکٹ اکیڈمی قائم کی جائے

متعلقہ عنوان :