بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات صرف با اختیار افراد سے ہوں گے ‘براہمداغ

نواب اکبر بگٹی نے بھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے ‘ جن کے پاس حالات بہتر کر نے کا اختیار ہے وہ بات کریں ‘ انٹرویو

بدھ 11 نومبر 2015 14:47

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 نومبر۔2015ء) بلوچ رپبلکن پارٹی کے سربراہ اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات پر اْن کی رائے جاننے کے لیے بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے جینوا میں اْن سے ملاقات کی ۔ بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں براہمداغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے وہ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن بلوچ رہنماوٴں سے مذاکرات کے لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس کوئی اختیار نہیں براہمداغ ماضی میں اس معاملے پر مذاکرات کی آپشن کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ بلوچستان کی آزادی تک جنگ رہے گی۔

سوئٹزرلینڈ میں موجود براہمداغ نے کہا کہ ان کے دادا نواب اکبر بگٹی نے بھی مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے ہیں لیکن ’جن کے پاس حالات بہتر کرنے کا اختیار ہے وہ آ کر بات کریں۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر سے ملاقات کے دوران کہا کہ اگر فوج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ذہن بدل لیا اور وہ بلوچستان میں آپریشن روک کر سیاسی طریقے سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں تو ہم بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

براہمداغ بگٹی نے بلوچستان میں قیامِ امن کی کوششوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو بلوچوں سے مذاکرات میں دلچسپی ہے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں امن اْس وقت تک نہیں آ سکتا ہے جب تک مذاکرات کے لیے ماحول ساز گار نہ ہو اور ماحول ساز گار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپریشن روکا جائے ان حالات میں مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں جب بلوچوں کے خلاف آپریشن بھی جاری ہے، لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے اور آئے دن لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان واپس جانے کی خبروں کو براہمداغ نے مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے گذشتہ کچھ عرصے میں اْن سے ملاقات کی ہے تاہم فوج کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان نہیں جا رہے ہیں۔