قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزراء اور سیکرٹریوں کی عدم موجودگی پراپوزیشن جماعتوں کا شدید احتجاج ،اجلاس کی کارروائی آدھا گھنٹے تک تعطل کا شکار رہی

بدھ 11 نومبر 2015 19:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 نومبر۔2015ء) قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزراء کی ایوان اور سیکرٹریوں کی گیلریوں میں عدم موجودگی پر قائدحزب اختلاف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کی وجہ سے اجلاس کی کارروائی آدھ گھنٹے تک تعطل کا شکار رہی، خورشید شاہ نے وزراء کے غیر سنجیدہ رویے پر حکومت کو شدید نکتہ چینی کانشانہ بناتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم خود ایوان میں نہیں آئے تو وزراء کیوں آئیں، ایک وزیر کے ساتھ ایوان کی کارروائی نہیں چلائی جا سکتی ، کور کمانڈر کانفرنس نے حکومت کو گورننس بہتر بنانے کی ہدایت کی مگر آرمی چیف کی ہدایت کے باوجود وزیراعظم اور وزراء گورننس بہتر بنانے کیلئے تیار نہیں، شیخ رشید اور محمود خان اچکزئی نے بھی وزراء کی عدم موجودگی پر احتجاج کیا، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگلے اجلاس میں پہلا شخص ہوں گا جو کورم کی نشاندہی کروں گا، نواز شریف اور راحیل شریف یعنی دونوں شریف ایک پیج پر رہے تو غیر مشروط حمایت کروں گا، محمود اچکزئی نے وزراء کی عدم حاضری پر ایوان سے علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پندرہ منٹ کی تاخیر سے شروع ہواتو سپیکر نے وقفہ سوالات کا آغاز کرایا تاہم اس موقع پر صرف وزیر دفاعی پیداوار اور دو پارلیمانی سیکرٹریوں کے علاوہ کوئی وزیر ایوان میں موجود نہ تھا جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اڑھائی سال گزرنے کے باوجود حکومت نے پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیا، وزراء کو عوام سے ووٹ لینے کا وقت تو ہوتا ہے، ایوان میں آنے کیلئے ان کے پاس وقت نہیں، جب وزیراعظم نے ہی ایوان میں آنا چھوڑ دیا تو پھر وزراء کیوں آئیں گے، ہمارے دور میں نہ کورم کی نشاندہی ہوتی تھی نہ ہی کورم ٹوٹتاتھا، ہمارے وزیراعظم ایوان میں آتے تھے، اس لئے مجھ سمیت سب وزراء کو بھی آنا پڑتا تھا ، اس وقت اسمبلی میں ایک بھی وزیر موجود نہیں، وزراء بادشاہ لوگ ہیں جب آ جائیں تو اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی جائے، وزراء کے ساتھ ارکان بھی غائب ہیں لیکن کوئی کورم کی نشاندہی نہیں کرتا، حال تو یہ ہے کہ ہماری تقاریر کانوٹس لینے کیلئے گیلریوں میں متعلقہ سیکرٹریز بھی موجود نہیں ہیں، وزراء کے غیر سنجیدہ رویے اور حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے بیورو کرسی بھی ایوان کو اہمیت نہیں دے رہے۔

شیخ رشید نے کہاکہ یہ ایوان اپوزیشن چلا رہی ہے، حکومت کی غیر سنجیدگی نامناسب ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی ہدایات کے باوجودوزیراعظم اور وزراء گورننس بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کر رہے۔ اس موقع پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے وزراء کی حاضری یقینی بنا دی اور ایوان کا وقار بلند کرایا، قومی اسمبلی میں بھی سپیکر وزراء کو حاضری کا پابند بنائیں، آئندہ اجلاس میں اگر کورم پورا نہ ہوا تو پہلا آدمی ہوں گا جو کورم کی نشاندہی کروں گا، ہم ارکان اور وزراء کو عیاشی نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سول بالادستی چاہتے ہیں، اگر دونوں شریف ایک پیج پر ہوئے تو غیر مشروط حمایت کریں گے۔اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں وزراء کی حاضری ہر صورت یقینی بنائی جائے گی، ان کے استفسار پر بتایاگیا کہ ایوان کی گیلریوں میں سیکرٹری خزانہ، داخلہ اور پلاننگ موجود نہیں ہیں، جس پر سپیکر نے تینوں سیکرٹریوں کو طلب کرتے ہوئے وزراء اور سیکرٹریوں کی آمد تک اجلاس 10 منٹ کیلئے ملتوی کر دیا۔

وقفے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ایوان میں وقفہ سوالات کا آغاز کر دیا گیا۔ نعیمہ کشور کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری داخلہ مریم اورانگزیب نے کہا کہ پاکستان نے 2008سے 2013کے عرصہ میں 5ممالک کے ساتھ مجرمان کے تبادلے کا معاہدہ کیا گیا تھا جن میں تھائی لینڈ، یو اے ای، ترکی اور یمن شامل ہیں، صرف تھائی لنیڈ کے ساتھ 42مجرمان کا تبادلہ کیا گیا۔

شیریں مزاری کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک میں رہزنی کے ایک لاکھ 19ہزار 796وارداتیں ،چوری کی 3لاکھ 74ہزار 309اور قتل کی 165وارداتیں ہوئیں، وزارت خزانہ کے سوال کا جواب نہ آنے پر سپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ سیکرٹریز کے ساتھ ایک الگ میٹنگ کرنا پڑے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ منشیات کے مریضوں کے علاج کیلئے ملک میں تین مراکز شامل ہیں یہ مراعز اسلام آباد، کوئٹہ اور کراچی میں قائم ہیں، اسلام آباد اور کوئٹہ کے مرکز میں 45بستروں کی گنجائش ہے جبکہ کراچی میں 35بستروں کی گنجائش ہے۔

محمود خاناچکزئی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ہیروئن کے سب سے زیادہ مریض خیبرپختونخوا میں ہیں۔ شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی میں طالبات کے کرکٹ میچ کے حوالے سے حملہ بارے صوبائی محکمہ داخلہ ہی بتا سکتا ہے۔ نفیسہ شاہ کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ نے کہا کہ جولائی اور ستمبر 2015 کے درمیان 216.2ملین ڈالر کی ملک میں سر مایہ کاری ہوئی جبکہ منافع کے طور پر 312.1ملین ڈالر ان کمپنیوں کو ادا کئے گئے۔

عارف علوی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹرری نے کہا کہ بیرونی ادائیگیوں کی سب سے زیادہ رقم آئل اینڈ گیس سیکٹر کو ادا کی گئی ہے۔ اعجاز جاکھرانی کے سوال کے جواب میں راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ گزشتہ 5سال کے دوران ملک میں جتنے قرضے لئے گئے وہ گزشتہ 60سال کے دوران نہیں لئے گئے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ اچھی بات ہے کہ ایوانکو گزشتہ 60سال کے اور حالیہ اڑھائی سالوں کے دوران لئے گئے قرضے کتنے ہیں ، حکومت نے اڑھائی سال میں بیرونی قرضے 1500ارب سے 2000ارب تک پہنچا دیئے، اگر ہماری حکومت نے قرضہ لیا تو وہ بھی غلط تھا، ایوان کو پتہ چلنا چاہیے کہ 2013 تک ہر پاکستانی کتنا مقروض تھا اور اب کتنا ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل نے کہا کہ آئینی طور پر معیشت کے کل حجم کے 60فیصد تک قرضہ لیا جا سکتا تھا، پی پی پی کے دور میں 63فیصد تھا جسے ہم کم کر کے 60فیصد کے قریب لے آئے ہیں۔