عسکری اداروں کی جانب سے حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دینے کا بیان اختیارات سے تجاوز ہے ،سینیٹرز

جمعرات 12 نومبر 2015 15:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔12 نومبر۔2015ء) ایوان بالا میں سینیٹرز نے عسکری اداروں کی جانب سے حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دینے کے بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے اسے اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے‘ عوام کو آپریشن ضرب عضب سمیت کئی معاملات پر تحفظات ہیں مگر اس کا برملا اظہار نہیں کیا گیا ہے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر عسکری اداروں کا کنٹرول ہے‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صورتحال واضح کی جائے ایوان بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اخبارات کی سرخیوں کے مطابق عسکری قیادت نے سول حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں آئی ایس پی آر نے بھی بیان جاری کیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حکومت نااہل ہے مگر اس کا اعلان فوجی جرنیلوں کے اجلاس میں کیا جانا درست ہے اور کیا یہ طریقہ درست ہے۔

(جاری ہے)

ہونا تو یہ چاہئے کہ اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ رابطہ کرنے انہوں نے کہا کہ دو روز قبل نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں حکومت اور ملٹری کے مابین ایک میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں تمام مسائل بیان کر دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق عسکری قیادت نے سینکڑوں عسکریت پسندوں کو مارا ہے مگر آج تک انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے اور نہ ہی کسی کی تصویر میڈیا کو جاری کی ہے انہوں نے کہا کہ ضرب عضب پر بھی عوام کو تشویش ہے اور کیا ہم نے عسکری اداروں سے اس سلسلے میں باز پرس کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ انتہائی نامناسب ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے سوات سمیت مختلف علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کو شروع کرنے کیلئے حکومت کو جو مشورے دیئے گئے اس پر کوئی عمل درامد نہیں کیا گیا اور اس بات کا اظہار عسکری قیادت کی جانب سے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں عسکری آپریسن ہو رہا ہے وہاں پر آپریسن کے بعد سول حکومت اپنی ذمہ داریاں لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔

سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ عسکری قیادت نے کئی ادوار میں در پردہ حکومت کی ہے عسکری قیادت کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہتے اور سول حکومت پر اعتراضات نہیں کرنے چاہئیں۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے حکومت پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والا میں خود ہوں اور حکومت کی کارکردگی سے بہت زیادہ مایوس ہوں مگر عسکری ادارے کو حکومت پر تنقید کی تو قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی نے لب کشائی کی مگر بدقسمتی سے اس موقع پر مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی نہیں بولا میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو گا تو پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہو گی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ملک کے تمام ادارے حکومت کے طابع ہونے چاہئیں ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں حساس ادارے براہ راست مداخلت کرتے ہیں یہ حکومت کا حق ہے ان اداروں کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہون نے کہا کہ خارجہ پالیسی کی یہ حالت ہے کہ سب سے پہلے انٹیلی جنس چیف دیگر ممالک کا دورہ کرتے ہیں اس کے بعد وزیراعظم جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں عوام اور خصوصاً پختونوں کی ہیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بعض ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کو سب سے زیادہ ہدف تنقید بناتے ہیں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔

حکومت پر تنقید جائز ہے مگر اس میں پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے ایوان سے سارے اداروں کو واضح اور دو ٹوک پیغام جانا چاہئے کہ آئین کی حدود میں رہ کر کام کریں چیئرمین سینٹ نے کہا کہ تمام ادارے اپنے آئینی اختیارات کے اندر رہ کر اپنا کام کریں انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر بحث ہو سکے اور انہوں نے کہا کہ جس قدر ایوان مضبوط ہو گی اس قدر حکومت مضبوط ہو گی۔