چیئرمین سینیٹ کا این ایف سی ایوارڈ رپورٹ بارے بحث سمیٹنے کیلئے وزیر خزانہ کی ایوان میں عدم موجودگی پر سخت اظہار برہمی، وزیر پٹرولیم کو پیغام وزیر خزانہ تک پہنچانے کی ہدایت، اپوزیشن جماعتوں کا وزیر خزانہ کی جگہ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل کو سننے سے انکار،علامتی واک آؤٹ

سینیٹرز کا این ایف سی کو منصفانہ بنانے‘ چھوٹے صوبوں کا حصہ بڑھانے اور فاٹا کو ایوارڈ کا حصہ بنانے کا مطالبہ، این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیر پر حکومت پر شدید تنقید

جمعرات 12 نومبر 2015 17:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 نومبر۔2015ء) چیئرمین سینیٹ نے این ایف سی ایوارڈ کی پہلی ششماہی رپورٹ بارے بحث سمیٹنے کیلئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی ایوان میں عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کو ایوان اور چیئرمین کا غم و غصہ وزیر خزانہ تک پہنچانے کی ہدایت کر دی۔

اپوزیشن جماعتوں نے وزیر خزانہ کی جگہ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل کو سننے سے انکار کر دیا اور علامتی واک آؤٹ کیا۔ قبل ازیں ارکان نے دوران بحث این ایف سی کو منصفانہ بنانے‘ چھوٹے صوبوں کا حصہ بڑھانے اور فاٹا کو ایوارڈ کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں ہونے والی تاخیر پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو این ایف سی ایوارڈ کی پہلی ششماہی رپورٹ پر بحث میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن ‘ حاصل بزنجو ‘ مشاہد حسین سید ‘ فرحت اﷲ بابر ‘ الیاس بلور ‘ شیریں رحمن ‘ جاوید عباسی ‘ سلیم مانڈوی والا ‘ سراج الحق ‘ عثمان کاکڑ ‘خالدہ پروین اور محسن لغاری نے حصہ لیا۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہ یہے۔

اس کا کوئی اجلاس نہیں بلایا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں این ایف سی کمیٹی و زیر اعظم یا وزیر خزانہ کے ماتحت نہیں ہوتی اگر اس طرح این ایف سی ایوارڈ رویہ رکھا گیا جائے گا تو محرومیاں بڑھیں گی۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ صوبے مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہو گا۔ وفاق آئین پاکستان کے تحت چل رہا ہے مگر ادارے صحیح انداز میں کام کر رہے ہیں سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہاکہ آئین کی رو سے صدر پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کے ممبران کی تقرری کرے۔

اگر پنجاب کے نجی ممبر کی نامزدگی نہیں آئی تو جلد منگوائی جائے وگرنہ دوسرے صوبوں میں تاثر جائیگا کہ پنجاب اس کی راہ رکاوٹ ہے۔ نیا این ایف سی ایک ایسے وقت میں آ رہا ہے جب پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے پیش رفت ہو رہی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے والے صوبوں کو زیادہ مراعات ملنی چاہئیں۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ 2009ء میں این ایف سی ایوارڈ ہوا تھا اور جولائی 2015ء میں اس پر اجلاس بلانا چاہیے تھا مگر نہیں بلایا گیا۔

سینیٹر شیری رحمن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ این ایف سی ایوار ڈکی منصفانہ تقسیم کو یقینی نائے۔ جب قو می بجٹ یا فنانس بل پاس ہوتا ہے تو اس وقت 4 صوبوں کے ٹیکس کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں دیا جاتا۔ سندھ نے صرف فنانس پالیسی بنائی ہے۔ معاشی ترقی کیلئے مگر دوسرے صوبوں نے اس پر کوئی کام نہیں کیا۔ ہماری جدوجہد نے انتہائی بہترین انداز میں این ایف سی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا۔

اس ملک میں اشرافیہ بھی اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا اس ملک کا غریب شہری دیتا ہے۔ سینٹر بیرسٹر جاوید عباسی نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کیلئے این ایف سی ایوار ڈمیں تمام صوبوں نے اپنے حصے کی رقم بھی دی ہے۔ ٹوٹل ٹیکس کلیکشن 1167 بلین تھی۔ اس 14 فیصد ٹیکس کلینکشن میں اضافہ ہوا ہے اور نیا ایوارڈ جو آ رہا ہے اس میں مزید بہتری ہو گی۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ اڑھائی سال میں این ایف سی کا ایک اجلاس ہوا ہے اور یہ وفاقی حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ ہے میں نے کئی خطوط لکھے ہیں ۔

بحیثیت ممبر این ایف سی حکومت این ایف سی میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ پنجاب سے ا بھی تک کوئی ممبر تعینات نہیں کیا گیا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آپ نے وفاق سے مایوس ہیں مگر میں صوبوں سے مایوس ہوں۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت این ایف سی میں سنجیدہ نہیں فاٹا کا کوئی حصہ نہیں ۔ میگا پروجیکٹس وہ چند اضلاع کے علاوہ تین چھوٹے صوبوں میں نظر نہیں آ رہا۔

کسان پیکج میں فاٹا کو نظر انداز کیا گیا۔ این ایف سی سیکرٹریٹ قائم کیا اور بھارت کی طرح اسے مستقل ادارے کی طرح بنایا جائے جو پورا سال کام کرے۔ عثمان کاکڑ نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ میں ایک سال کی تاخیر چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ سندھ ‘ کے پی کے اور بلوچستا ن کے وزراء بھی تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔ این ایف سی پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔

پنجاب چھو ٹے صوبوں سے 70,60 سال آگے ہے۔ این ایف سی کا زیادہ حصہ پسماندہ صوبوں کو ملنا چاہیے۔ خالدہ پروین نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اب صوبوں کو اپنے مالیاتی کمیشن بنانے چاہئیں۔ پنجاب میں مالیاتی کمیشن نہیں بنایا گیا۔ محسن لغاری نے کہاکہ پنجاب میں 2002ء میں مالیاتی کمیشن موجود تھا لیکن گزشتہ 8 سے 10 سال سے یہ کمیشن غیر فعال ہے۔ لاہور کی نسبت جنوبی پنجاب کو کم وسائل فراہم کئے جاتے ہیں۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزا ز احسن نے کہا کہ پنجاب صرف لاہور نہیں صوبے کے دیگر علاقوں میں پسماندگی دیگر صوبوں سے کم نہیں ۔ اگر جنوبی پنجاب کے لوگ اپنے بچوں کے نام لودھراں اور صدیق بلوچ رکھنا شروع کر دیں تو پھر دیکھیں کس طرح فنڈز ان کے لئے کھل جا سم سم کی طرح جاری ہوں گے۔ ملک میں مالیاتی ڈسپلن نہیں۔ قرضوں کی کم از کم شرح کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

حکومت آئندہ نسلوں کو مقروض بنا کر جا رہی ہے۔ بحث کے اختتام پر وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ میں ایوان کو آگاہ کر دوں کہ وزیر خزانہ جمعہ کو خود ایوان میں آ کر این ایف سی پر اہم بحث کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی غیر سنجیدگی عیاں ہے ۔ وزیر خزانہ کو آج ایوان میں بحث سمیٹنے کیلئے موجود ہونا چاہیے تھا تاہم اس رویہ پر ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اپو زیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے شاہد خاقان عباسی چیئرمین کی ہدایت پر ارکان کو منا کر واپس لائے ‘ چیئرمین سینٹ نے وزیر پٹرولیم و قدرتی ودسائل کو ہدایت کی کہ وہ وزیر خزانہ کی بحث سمیٹنے کیلئے ایوان میں غیر موجودگی پر ارکان اور چیئرمین کے اظہار ناپسندیدگی سے آگاہ کریں کیونکہ وزیر خزانہ نے واضح یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بدھ کو ایوان میں آکر بحث سمیٹیں گے