چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس

جمعرات 12 نومبر 2015 23:04

اسلام آباد ۔12 نومبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔12 نومبر۔2015ء) اراکین سینٹ نے فاٹا میں اصلاحات اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور نکتہ نظر کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں فاٹا میں اصلاحات کیلئے بحث کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا۔ ان خیالات کا اظہار ایوان بالا کے اراکین نے کمیٹی آف دی ہول کے اجلاس میں اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے کیا جو جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں فاٹا کے حوالے سے بات ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ چیئرمین سینٹ کو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

فاٹا کو سٹرٹیجک خطہ کہا جاتا ہے لیکن یہاں کے عوام کی سٹرٹیجک حیثیت کو اہمیت نہیں دی گئی۔ فاٹا میں تبدیلیاں اور اصلاحات وہاں کے عوام اور نمائندوں کے ذریعے ہونی چاہئیں اور آئین میں کوئی بھی ترمیم ان کے لئے قابل قبول ہونا ضروری ہے تاکہ اس پر عملدرآمد ہو سکے۔

تمام سٹیک ہولڈرز بھی سب سے زیادہ متعلقہ ہونے چاہئیں اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سب سے بڑا فریق ہے۔ فاٹا کے لوگ جمہوریت پسند ہیں اور وہ اصلاحات چاہتے ہیں اور فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ان کا بیان خوش آئند ہے۔ صحیح سمت میں چھوٹے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، اور سب کیلئے قابل قبول سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو فاٹا کے عوام کی خواہشات کے بغیر ممکن نہیں اور آئین کے آرٹیکل 247-7 کو ختم کرنے کیلئے اور انہیں سپریم کورٹ میں جانے کیلئے ایک بل اس ایوان نے متفقہ منظور کر رکھا ہے جو قومی اسمبلی میں ابھی پیش نہیں ہوا ہے۔

فاٹا کے اندر بھی لوکل گورنمنٹ یا ایجنسی کونسل ہونی چاہئے۔ قبائلی بچے اور بچیاں تعلیم اور کھیل میں سب سے آگے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ سیفران کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے جو تجاویز فرحت اللہ بابر نے پیش کیں ان پر ہم نے بہت سا کام کیا ہے۔ اس وقت ملٹری کی انٹری سے پہلے گورنر ہوتے تھے اور ایف سی آر کا قانون لاگو تھا، 7 قبائلی ایجنسیاں ہیں اور 6 ایف آر ہیں جہاں پولیٹیکل ایجنٹ قبائلی عمائدین اور مشران سے مدد کے ذریعے نظام چلاتا تھا اور رواج اور شریعت کی روشنی میں فیصلے ہوتے تھے۔

1948ء سے فوج کے آنے تک یہ نظام چل رہا تھا جس کے بعد کمانڈنٹ کی نگرانی میں وہ انتظام شیئر ہونے لگ گیا۔ قبائلی ملک اور مشر طالبان نے شہید کر دیئے اور جرگہ سسٹم بھی غیر فعال ہے۔ وفاقی وزیر نے ایوان کو مزید بتایا کہ عوامی نمائندوں کا ایف آر کے معاملات میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہے۔ فاٹا اصلاحات کیلئے جو پیکیج پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سب سے پہلا پیکیج قیام امن ہے، امن آنے کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ اختیارات کے ساتھ واپس ہوں، آئی ڈی پیز کی واپسی اور بحالی سب سے زیادہ اہم ہے۔

انفراسٹرکچر اور نظام حکومت کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ سیفران کی وزارت اور گورنر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے پارلیمنٹرین اور مشران سے بھی مختلف امور پر مشاورت کر رکھی ہے، پہلا ایف آر قوانین میں ترمیم ہو نظام ایسے ہی ہو، علیحدہ صوبہ، خصوصی حیثیت دی جائے جس طرح گلگت بلتستان کو دی گئی ہے، فوج سے بھی تجاویز شیئر کی گئی ہیں۔ ہم تجویز کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان والا نظام لاگو کیا جائے اور 10 سالہ ترقیاتی پروگرام چلایا جا ئے تاکہ انہیں دوسرے صوبوں کے برابر لایا جا سکے۔

40 ممبر آبادی کی بنیاد پر چلنے چاہئیں، خواتین کی نمائندگی بھی ہو ان میں سے ایک وزیراعلیٰ ہو اور کابینہ ہو اور گورنر کے اختیارات انہیں منتقل ہوں اور پھر قانون سازی کیلئے ادارے بنائے جائیں، کوئی انقلابی اقدامات نہیں، ایوولوشن کے تحت کام کر رہے ہیں اور ان کی پسند شامل ہوں جس کیلئے پریزنٹیشن تیار کر لی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے وہ بھی اپنی آؤٹ پٹ ا یوان میں لا سکتی ہے۔

10 سالہ ترقیاتی پروگرام چلایا جائے، معدنی وسائل سے استفادہ کرنے اور پراسیسنگ مقامی سطح پر کرائی جائے، خام مواد باہر لیجانے کی اجازت نہ ہو تاکہ مقامی سطح پر روزگار مل سکے، ملازمتوں کا کوٹہ 2 فیصد ہے جسے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ منی مارشل ڈویلپمنٹ پلان کا کام میں نے دیا ہوا ہے۔ آرمی ایف ڈبلیو او اور ترقیاتی پارٹنرز ہونے چاہئیں، طلباء کا کوٹہ دوگنا کیا جائے، مقامی سطح پر سکل ٹریننگ، ملازمت کے مواقع دینے پر کام کرینگے۔

سالانہ 4 سے 5 ہزار ان بچوں کی تعداد ہو گی، ہر ضلع میں یونیورسٹی کی بات کی جاتی ہے وہاں بھی یونیورسٹی آ جائے تو بہتر ہو گا۔ کونسل کے قیام کیلئے ٹائم فریم واپسی کی کارروائی جون 2016ء تک نہیں ممکن ہو گی۔ جولائی 2016ء کے بعد امن و امان، بحالی پر کام شروع ہو گا۔ سینٹیر میر حاصل بزنجو نے فرحت اللہ بابر کی تجاویز سے اتفاق کیا۔ فاٹا کی صورتحال پاکستان کے تمام لوگ اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ٹرائل ازم دنیا کا بدترین نظام ہے اور انگریز نے چند ملکان کے ذریعے ان علاقوں کو کنٹرول کیا پہلے اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ فاٹا بھی ہمارا حصہ ہے۔

پھر بات آگے اصلاحات کی جانب بڑھ سکے گی۔ پورے فاٹا کو دیگر صوبوں کی طرح ون مین ون ووٹ کا حق ملنا چاہئے۔ حکومت جو بھی اصلاحات لائے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کئے جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، وہاں کے عوام کا استحصال نہیں ہونا چاہئے۔ جرگہ کوئی مہذب نظام نہیں، سپریم کورٹ تک رسائی ملنی چاہئے۔ فاٹا کو جتنی جلدی ممکن ہو پراسیس کے ساتھ انہیں ریلیف دیا جائے ، انہیں ملک کا حصہ بنایا جائے، دہشت گرد طالبان سب آنا بند ہو جائیں گے۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کمیٹی آف ہول کا اجلاس بلانے پر چیئرمین سینٹ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے اجلاس کے موقع پر ہمارے مطالبہ پر جو کمیٹی حکومت نے بنائی اس پر حکومت کے شکر گزار ہیں ۔ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اپوزیشن لیڈرز کو بھی نمائندگی دی جائے۔ ہم اپنے رسم و رواج میں رہتے ہوئے آئین پا کستان میں پاکستانی شہریوں کو تفویض کردہ حقوق مانگتے ہیں۔

الگ صوبہ اور خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں جس کیلئے تحمل سے کام کرنے کی ضرورت ہے، باقی صوبوں کے برابر لانے پر خصوصی پیکیج دیا جانا چاہئے، تعلیم، صحت، روزگار کا کوٹہ بڑھانے اور فاٹا کونسل کے قیام کی بات ہو رہی ہے یہ قابل عمل ہے کیونکہ انفراسٹرکچر موجود ہے، زیادہ مشکل نہیں ہو گی ۔قانون ساز کونسل ہو اور قوانین اور فیصلے سازی کا عمل وہاں کے نمائندے خود کرینگے۔

کونسل آنے سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی ہمیں میسر آ جائے گا۔ ہم فاٹا اصلاحات کیلئے ملک اور قوم کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بھی فاٹا ریفارمز اہمیت رکھتا ہے جو خوش آئند ہے، حکومت نے بھی اس جانب کمیٹی بنائی ہے اور آج سینٹ میں بھی اس پر بات ہو رہی ہے جو خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام نے قائداعظم کا استقبال کیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو کو پتھر برسا کر بھگایا تھا۔ اس تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سینٹ ڈیفنس کمیٹی کو فاٹا کو اہمیت دینے کی تجویز سینیٹر ہدایت اللہ نے دی تھی جس پر کمیٹی نے فاٹا کا دورہ کیا اور تجاویز مرتب کیں۔ فاٹا کے لوگوں کو صوبے میں پولیس میں بھرتی کی اجازت نہیں بلکہ وہ اسلام آباد میں ہی ملازمت لے سکتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی تجاویز قابل عمل ہیں ان پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ ایف سی آر ختم کیا جائے اور کونسل جو بااختیار ہو قائم کی جائے۔ اقتصادی ترقی کے مواقع دیئے جائیں، قیمتی معدنیات کے بے پناہ ذخائر ہیں اور اسے سی پیکیج کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہاں کے لوگ معدنیات سے اپنے وسائل حاصل کر سکیں۔ آرمڈ فورسز کی طرف سے اصلاحات کی بات کرنا حکومت کیلئے ایک موقع ہے انہیں اس پر فوری کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ دیگر جمہوری اصولوں کی پابندی کو جس طرح لاگو کیا اسی طرح نظر انداز ، قبائل کی اصلاحات کیلئے پورا ہاؤس کمیٹی کی تشکیل پر شکر گزار ہے۔ فاٹا کے اراکین کو اس کمیٹی میں شامل کیا جائے جو حکومت نے تشکیل دی ہے۔ فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے سے پٹوار کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور ہماری آبائی جائیداد پہاڑوں پر مشتمل ہے جو پٹوار میں نہیں ہے۔

انہوں نے فاٹا کے انتظامی مسائل علاقہ کے مکینوں کے بودوباش تحفظات سے ایوان کو تفصیلی آگاہ کیا اور تجاویز دی کہ فاٹا کے تمام اراکین سے تجاویز لی جائیں۔ سینیٹر نثار خان نے کہا کہ 65 سال سے فاٹا کے عوام ہمارے لئے بولتے تھے لیکن پہلی مرتبہ ہم ان کیلئے بول رہے ہیں، فاٹا جغرافیائی اعتبار سے اہم خطہ ہے۔ قانون سازی اور انتظامی امور کے حوالے سے بات کریں تو آرٹیکل 247-7 میں سب حقوق کی ضمانت موجود ہے۔

فاٹا کے ماضی حال اور مستقبل کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ عوام کو سہولت اور علاقہ کی حساسیت کیلئے انتظامی اصلاحات ہو سکیں۔ چیئرمین سینٹ نے سیکرٹری سینٹ کو ہدایت کی کہ بذریعہ خط فاٹا کے اراکین سے آئندہ اجلاس تک تحریری تجاویز طلب کی جائیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ایف سی آر کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک متبادل کوئی مناسب قانون سازی نہیں کر لی جاتی جو حساس معاملہ ہے۔

فاٹا کے قبائلی روایات اور جرگہ سسٹم پر ہمیں فخر ہے۔ معدنیات کے وسائل ہیں جس کیلئے میکانائز مائننگ درکار ہوتی ہے۔ اور اس مقصد کیلئے کمپنی رجسٹریشن کا قانون ہی نہیں ہے اور کوئی انڈٹسریل سٹیٹ نہیں ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ فاٹا کی تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس سے اسے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ سکندر اعظم اس علاقہ کو ختم نہیں کر سکا۔

فاٹا کو کشمیر کے برابر بھی حیثیت نہیں مل سکی ، ایف سی آر کا قانون ختم ہونا چاہئے۔ جرائم کا تصور بھی فاٹا میں نہیں تھا وہاں کے لوگ جمہوری اور محب وطن ہیں۔ آمریت کے ادوار میں فاٹا کو دہشت گردوں کی جنت بنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج آپریشن ضرب عضب کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے تجویز دی کہ فاٹا کی خود مختاری برقرار رکھی جائے اور مزید مضبوط کیا جائے۔

فاٹا کی ہر ایجنسی میں منتخب کونسلر اور ایگزیکٹو ہونا چاہئے۔ فاٹا کا اپنا منتخب گورنر فاٹا سے لایا جائے۔ فاٹا کا اپنا سیکرٹریٹ اور بجٹ ہو اور این ایف سی ایوارڈمیں بھی شامل کیا جانا چاہئے اور فاٹا کا فیصلہ وہاں کے مشران جرگہ اور عوام کی مشاورت سے لیا جائے، نقصانات کا ازالہ کیا جائے، صنعتی اور فری اقتصادی زون قائم کیا جائے اور مصنوعات کی رسائی عالمی منڈیوں تک ہونی چاہئے۔

فاٹا کا کوٹہ دگنا کرنے کی وزیر سیفران کی تجویز احسن ہے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ آئی ڈی پیز کو زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔ فاٹا کے اس مسئلہ پر تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا لیں۔ بیرسٹر سیف، سینیٹر ترمذی آئندہ اجلاس میں بحث کرینگے۔ سٹیک ہولڈرز میں ایمبیسڈر ایاز وزیر، افراسیاب خٹک، ضعیم اللہ یوسفزئی، حمید اللہ جان آفریدی، فاٹا کے اراکین اسمبلی، حاجی منیر اورکرزئی، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، جنرل (ر) عالم مقصود، گورنر کے پی کے، چیف منسٹر کے پی کے اور ملٹری بیورو کریسی سے نمائندوں، بریگیڈیئر (ر) ایاز خان، فاٹا لائرز فورم کے اراکین، فاٹا کے صحافیوں اور نوجوانوں کی نمائندگی کو بھی آئندہ اجلاس میں بلانے اور ان کی آراء حاصل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

میاں اجمل رپورٹ، شہید بھٹو فاؤنڈیشن کی رپورٹس اور فاٹا کے حوالے سے دیگر رپورٹس بھی طلب کیں جنہیں مرحلہ وار کمیٹی آف دی ہول کے اجلاسوں میں بلایا جائے گا جس کے بعدکمیٹی کا اجلاس ملتوی ہو گیا۔

متعلقہ عنوان :