لاہور ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر فوڈ پنجاب عائشہ ممتاز کی جانب سےریسٹورنٹس اور بیکریوں پر مارے جانے والے چھاپوں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر کاروباری افراد کوبدنام کر کے ملزم کیوں ٹھرایا جا رہا ہے ,,,فوڈ اتھارٹی کوسوشل میڈیا پر کسی کی شہرت داغدار کرنے کا اختیار کون سا ملکی قانون دیتا ہے .

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 13 نومبر 2015 11:58

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔13 نومبر۔2015ء) >لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔ ریسٹورنٹس ایسویسی ایشن کے وکیل پیر مسعود چشتی نے عدالت کو بتایا کہ قوانین کے تحت جب تک عدالت میں کسی کا جرم ثابت نہ ہو جائے اسکی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ عائشہ ممتاز فوڈ فیکڑیوں پرچھاپوں کے بعد کارروائی کو فیس بک پر جاری کر دیتی ہیں اور فیکڑیوں کو سیل کر دیتی ہیں جس سے وہاں موجود دودھ اور دیگر اشیاء خراب ہونے سے تاجروں کو کروڑوں روپے نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے.پنجاب کے حکمران اپنے کاروباری دوام کے لئے محکمہ فوڈ کا سہارا لے کر اپنے حریفوں کے کاروبار کو تباہ کر رہے ہیں جس سے کاروباری طبقہ دیگر صوبوں میں اپنا کاروبار منتقل کر رہا ہے.جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شفاف ٹائل کا حق دئیے بغیر میڈیا ٹرائل کی قانون میں اجازت نہیں توفوڈ ڈیپارٹمنٹ لوگوں کو کیوں بدنام کر رہا ہے.ٹرائل میں اگر کوئی بے گناہ ثابت ہو گیا تو اسکی ساکھ واپس کیسے آئے گی.محکمہ فوڈ کے افسران فیکڑیاں سیل کر کے خود ہفتے کی سرکاری چھٹی کا مزہ لیتے ہیں ,,عدالت نے ڈی جی فوڈ کو ہدائت کی ہے کہ زیر التواء اپیل پر سماعت کر کے چار یوم میں فیصلے کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے.