اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار

منصوبہ اسی انداز میں آگے بڑھایا جا ئے جیسا آل پارٹیز کانفرنس میں طے کیا گیا تھا، اپوزیشن لیڈر کا وزیر اعظم کے نام خط

جمعہ 13 نومبر 2015 17:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 نومبر۔2015ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں کی ترجیحات اور طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاور پلانٹس سمیت دیگر امور میں پنجاب کوترجیح دی جا رہی ہے جس سے چھوٹے صوبوں میں پنجاب کیخلاف ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے، وفاق کو قائم رکھنے کیلئے حکومت کوسی پیک منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے فوری طور پر اپنی پالیسی اور ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ،س بات کو یقینی بنایا جائے کہ منصوبہ اسی انداز میں آگے بڑھایا جائیگا جیسا آل پارٹیز کانفرنس میں طے کیا گیا تھا۔

جمعہ کو وزیراعظم کے نام اپنے خط میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سی پیک منصوبے کو پاکستان کیلئے ترقی کا اہم ترین منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ آزمودہ دوستوں کا مشترکہ مستقبل ہے اور اس سے دو طرفہ تعلقات ، اقتصادی تعاون اور سٹریٹجک شراکت داری کو مزید استحکام حاصل ہو گا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہ یہ میگا پراجیکٹ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اور ہر محب وطن پاکستانی دلی طور پر اس منصوبے پر بلا رکاوٹ عملدرآمد کی حمایت کرتا ہے تاہم جس طریقے سے اس منصوبے پر اس وقت کام کیا جا رہا ہے اس سے مختلف سٹیک ہولڈرز کے مابین تحفظات پیدا ہوئے ہیں ۔

پراجیکٹ کا مقصد پورے پاکستان کو فائدہ پہنچانا تھا اور اس پر اسی طرح عمل کی ضرورت ہے تاہم یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ منصوبے سے ایک صوبے کو زیادہ فائدہ مل رہا ہے ۔ منصوبے پر جس طرح کام کیا جا رہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مختصر اور بہتر مغربی روٹ کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دی جا رہی ہے جس سے دوسرے صوبوں میں پنجاب کیخلاف ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے انہوں نے لاہور کراچی موٹروے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لاہور عبد الحکیم سیکشن کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جا رہاہے حالانکہ دونوں جانب اچھی سڑکیں موجود ہیں جن میں بائیں جانب این ایچ فائیو اور دائیں جانب ایم ٹو اور ایم تھری شامل ہیں اگر متعلقہ امور پر توجہ نہ دی گئی تو لاہور کراچی موٹروے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے ۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر کراچی حیدر آباد سیکشن کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ پہلے سے موجود نیشنل ہائی وے پر موٹر وے تعمیر کیا جا رہاہے یہ کاتاہ اندیشانہ سوچ ہے اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعمیراتی کام صرف اسی سیکشن پر کیا جا رہاہے جبکہ حیدر آباد سیکشن پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی حیدر آباد سکھر سیکشن مکمل ہو چکا ہے اور سکھر ملتان سیکشن کی تعمیر سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا خورشید شاہ نے اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے صوبے بالخصوص سندھ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ صوبہ ملک کے ریونیو کا 60 فیصد دیتا ہے اور یہاں قدرتی گیس کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں بن قاسم اور کراچی پورٹ ٹرسٹ جیسی دو اہم بندرگاہیں موجود ہیں سندھ کے چند اہم منصوبوں کو سی پیک پراجیکٹ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جن میں کیٹی بندر پورٹ کی تعمیر اورسکھر بیراج کی تعمیر نو شامل ہیں کیونکہ سکھر بیراج اپنی مدت کئی برس پہلے مکمل کر چکا ہے ۔

انہوں نے سکھر سے گدو تک دریا پر پشتوں کی تعمیر کا بھی مطالبہ کیا کیونکہ گدو تک تقریباً 50 ہزار کیوسک پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر تا رتو ڈیرو روڈ زیر تعمیر ہے جو 2016 ء تک مکمل ہو جائیگا لیکن یہ اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہو گا جب تک رتو ڈیرو سے سکھر روڈ سکھر ملتان موٹر وے سے منسلک کر کے تعمیر نہیں کیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت زیادہ نئے پاور پلانٹس پنجاب میں لگائے جا رہے ہیں جو حکومت کی ترجیحات سے متعلق متعد سوالات اٹھاتے ہیں ۔

انہوں نے ساہیوال میں کول پاور پراجیکٹ کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئلے سے چلنے والے منصوبے عام طور پر ساحل سمندر یا ان علاقوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں کوئلے کے وافر ذخائر موجود ہوں لیکن یہ منصوبہ ایسے علاقے میں شروع کیا جا رہاہے جہاں مذکورہ ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ یہ ایک زرعی علاقہ اور یہاں کول پلانٹ کی تعمیر کئی طرح سے تباہ کن ہو گی یہ زمین کی زرخیزی کو متاثر کریگا بجلی کی پیداواری لاگت بڑھ جائیگی اور آلودگی میں خاص طورپر قریبی آبادی والے علاقوں میں اضافہ ہو جائے گا ۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ وفاق کو قائم رکھنے کیلئے حکومت کوپاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے فوری طور پر اپنی پالیسی اور ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں لے کر انکے تحفظات کا ازالہ کیا جائے ۔ انہوں نے وزیراعظم سے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ منصوبہ اسی انداز میں آگے بڑھایا جائیگا جیسے آل پارٹیز کانفرنس میں طے کیا گیا تھا۔