پہلے ڈومورکی آوازیں باہر سے آ رہی تھیں اب ایسے مطالبات اندر سے بھی آنے لگے ہیں،اسفندیارولی خان

دہشتگردی کیخلاف مشترکہ اقدامات نہ کئے گئے تو خطہ بدترین جنگ کی لپیٹ میں آجائیگا،کپتان حکومتی مک مکا ،یوٹرن کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، تازہ مثال کیو ڈبلیو پی کو دوبارہ شریک اقتدار بناناہے،سربراہ عوامی نیشنل پارٹی

جمعہ 13 نومبر 2015 21:08

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 نومبر۔2015ء) عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے ملکی حالات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ ڈو مور ‘‘ کی آوازیں پہلے باہر سے آرہی تھیں تاہم اب اس قسم کا مطالبہ ملک کے اندر سے بھی ہونے لگا ہے جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ پاکستان کو بیرونی چیلنجز کے علاوہ اندرونی عدم استحکام اور محاذ آرائی کا بھی سامنا ہے۔

شیخ کلے میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی اور ریاستی حالات د گردوں ہیں اور اب تو حالت یہ ہے کہ ڈومور کی جو آوازیں پہلے باہر سے آرہی تھیں اب وہ ملک کے اندر سے بھی آنے لگی ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے حالات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک افغانستان میں استحکام اور امن نہیں آتا اور اس کے لیے لازمی ہے کہ دونوں ممالک اپنے اتحادیوں کے ہمراہ دہشتگردی کے خاتمے اور علاقائی مفاہمت کیلئے باہمی روابط اور اعتماد سازی پر فوری توجہ دیں ورنہ خطہ ایک بد ترین جنگ کی لپیٹ میں آ جائیگا جس سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو گااور اس پس منظر میں فاٹا کے معاملات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

اے این پی کے سربراہ نے مزید کہا کہ پاکستان کے حالات د گردوں ہیں اور اصلاح احوال کی کوئی مستقل یا سنجیدہ صورت نظر نہیں آرہی اس کو سنگین نوعیت کے اندرونی اور بیرونی چیلینجز کا سامنا ہے تاہم بحرانوں سے نکلنے کے اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ اُنہوں نے کہا کہ خطے کے حالات اور متوقع علاقائی خطرات سے نکلنے کیلئے ٹھوس سیاسی اور ریاستی پالیسیاں اور اقدامات ناگزیر ہیں اور اس کے لیے سنجیدہ پالیسیوں ، بہتر سفارتکاری اور سیاسی مشاورت کی اشد ضرورت ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ کاریڈور کے ایشو پر حکومت کی مہم اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے فاٹا اور پختونخوا کے عوام تشویش میں مبتلا ہیں۔ تحریک انصاف کی پالیسیوں اور طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے اسفندیار ولی خان نے کہا کہ ہمارا صوبہ بدقسمتی سے ایک ایسی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے جن کو نہ تو عوامی خواہشات ، درپیش چیلینجز اور روایات کا کوئی ادراک ہے اور نہ ہی ان میں معاملات چلانے کی صلاحیت موجود ہے اس کی تازہ مثال صوبائی حکومت کا وہ افسوسناک رویہ ہے جو کہ افغانستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کیساتھ اپنایا گیا۔

اُنہوں نے کہا کہ کپتان مک مکا اور یوٹرن کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور قومی وطن پارٹی کو حکومت سے نکالنے اور اب دوبارہ شامل کرنے کا اقدام اس یوٹرن کی نئی مثال ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر کردار کشی اور انتقامی کارروائیاں ناقابل برداشت ہیں اور کسی قیمت پر اس کی اجازت نہیں دی جائیگی۔اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو ان کے اپنے وزراء ، ممبران اسمبلی اور پارٹی لیڈر شپ کی جانب سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کا سامنا ہے تاہم عمران خان نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور وزیر اعلیٰ دوسروں کے علاوہ اپنے وزراء اور ممبران کو بھی انتقام کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سیاست اور صوبے کے مفادات کو انتقام کی بھینٹ چڑھائیں۔ جلسہ عام سے اے این پی چارسدہ کے صدر اور سابق صوبائی وزیر بیرسٹر ارشد عبداﷲ نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :