وزیراعلیٰ بلوچستان اپنی نام کی طرح صوبے کا خود کو اکلوتا مالک تصور نہ کریں،مولانا عبدالواسع

صوبے کے حوالے سے فیصلے اسمبلی کے مشاورت سے کرنا ان کا فرض ہے ، اپوزیشن لیڈر بلوچستان اسمبلی

جمعہ 13 نومبر 2015 23:06

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 نومبر۔2015ء ) جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی نام کی طرح صوبے کا خود کو اکلوتا مالک تصور نہ کرے ۔بلوچستان کے حوالے سے فیصلے اسمبلی کے مشاورت سے کرنا ان کا فرض ہے ۔حکومتی اتحادیوں سے بلوچستان کے عوام کو بناکر گواہ پوچھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے تمام فیصلوں میں وہ شریک ہے یا یہ ان کے اپنے فیصلے ہیں وزیراعلیٰ سے کہتے ہیں کہ وہ گوادر کے حالیہ دورے کے حوالے سے وہ اپنے کئے گئے فیصلے اسمبلی اور کابینہ کے سامنے رکھ دے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے ۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ روز اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 نومبر۔2015ء سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔

(جاری ہے)

انہو ں نے کہا کہ دو ہفتوں کے مہمان وزیراعلیٰ اتنے مہربان تو نہیں ہوئے اس دو ہفتوں کے اقتدار کو 2صدیوں کو بھگتے رہے وہ حیران ہے کہ موجودہ حکومت اور اتحادی جن کا دعویٰ عوام کے حقوق کی تحفظ کا تھا کو ڈاکٹر مالک بلوچ نے نظر انداز کرتے ہوئے تن تنہا صوبے کی قسمت کا فیصلہ خود لگنے کیلئے گوادر روانہ ہوگئے ۔

آج وہ قوم کے حقوق دلانے والے دعویداروں سے پوچھتے ہے کہ اکیلے جاکر صوبے کے قسمت کا اختیار انہوں نے بھی وزیراعلیٰ کو دے رکھا تھا یا وزیراعلیٰ معاہدے اور فیصلے تن تنہا کرکے آئیے ہے کیونکہ آئندہ کی بلوچستان میں کہی ایسا نہ ہو کہ ان کے موجودہ اتحادی اپنے اس بات سے منکر نہ ہوجائے کہ ان کے وزیراعلیٰ کے فیصلوں کو ان کی تائید حاصل نہیں تھی ۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اسمبلی کی تائید سے محروم وزیراعلیٰ نے اکثر ایسے فیصلے از خود کئے جس کا تقاضا یہی رہا ہے کہ وزیراعلیٰ کم از کم اپنی کابینہ سے منظوری لیتے نہیں تو اسمبلی بھی ضروری تھی ۔جس طرح کے ریکوڈک کے حوالے سے وہ سرگرم عمل نظر آئے لیکن حکومت کے سینئر وزیر و چیف آف جھالاوان نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ان کیساتھ فرانس اور لندن جانے سے یکسر انکار کردیا تھا جوکہ اس بات کی دلیل اگر اس طرح کے معاملات کو کابینہ میں بحث یا منظوری کیلئے لایا جاتا تو یقینا ان کو کابینہ مسترد کرتی ۔

انہوں نے کہا کہ وہ آج حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے عوام کو گواہ بناکر پوچھتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کہ صوبے کے مختلف معاملات میں کئے گئے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں یا یہ ان کی ذاتی فیصلے ہوسکتے ہیں ۔کہی ایسا نہ ہو کہ اقتدار کے دن ختم ہوتے ہی ایک بار پھریہی رونا شروع کہ وزیراعلیٰ نے ان کو اعتماد میں نہیں لے رکھا تھا ۔بہتر یہ ہے کہ وہ حکومت میں اپنے پوزیشن واضح کرے ۔