سفارتکاروں کی بھارت کو جوہری کلب میں شامل کرنے کی خاموش مہم ،پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ کا خدشہ

منگل 24 نومبر 2015 23:45

سفارتکاروں کی بھارت کو جوہری کلب میں شامل کرنے کی خاموش مہم ،پاک بھارت ..

نئی دہلی/لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24نومبر۔2015ء) نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اثر رسوخ رکھنے والے سفارتکاروں نے جنوبی ایشیاء میں استحکام کو بڑھانے کی بجائے خاموشی سے بھارت کو جوہری تجارت کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل کرنے کی مہم شروع کردی جس سے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کے چیئرمین نے حال ہی میں نئی دہلی کا دورہ کرکے وزیر خارجہ ششما سوراج سے ملاقات کی جوکہ سفارتی " پیشرفت" کا حصہ تھی تاکہ اگلے سال جون میں بھارت کو کلب میں شامل کرنے کے لیے اتفاق رائے قائم کیا جاسکے۔

بھارت کو پہلے جوہری دھماکے کے تجربے کے 41 سال بعد 48 ممالک پر مشتمل کلب کی رکنیت ملنے کا امکان ہے اور اس سے 1.25 ارب افراد پر مشتمل ملک کو متعدد مفادات حاصل ہوں گے۔

(جاری ہے)

این ایس جی کے سربراہ رافیل گروسی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ یہ بہت پیچیدہ عمل ہے مگر میرے خیال میں رکاوٹ کے لیے کم سے کم جواز موجود ہے۔مگر اس حوالے سے شبہات بھی موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہبھارت نے جوہری عدم پھیلاؤ یا این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ہے۔

این ایس جی اتفاق رائے سے کام کرنے والا گروپ ہے اور ہندوستان کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے مغربی پڑوسی کو کلب سے دور رکھا جائے، جس سے ممکنہ طور پر پاکستان اس شعبے میں مزید کام کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔اس وقت پاکستان کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں جو پورے بھارت تک مار کرسکتے ہیں اور مختصر فاصلے تک میزائلوں کے بھی جس کے بارے میں اس کا اصرار ہے کہ ان کا استعمال اسی وقت ہوگا جب ہندوستانی فوجی پاکستانی سرحد کو عبور کریں گے۔

این ایس جی میں رکنیت سے بھارت کی جغرافیائی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگی اور اسے جوہری تجارت اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی، جبکہ اس سے پاکستان میں خدشات بھی ابھریں گے۔ایک سینئر پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق بھارت نے امریکا اور فرانس کے ساتھ جوہری معاہدے کررکھے ہیں، وہ جلد آسٹریلیا اور جاپان سے بھی معاہدے کرلے گا۔ تو یہ سب این ایس جی کا حصہ بننے کے لیے ہے۔ مگر لوگ یہ سمجھ نہیں پارہے کہ بھارت اپنا اضافی ایندھن (سول جوہری معاہدوں کے ذریعے) سے توانائی کی پیدوار کے ساتھ اسے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے بھی استعمال کرے گا۔پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ آخر میں ہماری جانب سے مزید مزاحمت کی ضرورت بڑھے گی، کمی نہیں آئے گی۔

متعلقہ عنوان :