آزاد تجارتی معاہدہ دوطرفہ تجارتی حجم میں اضافے کیلئے ناگزیر ہے، کورین سفیر

بدھ 25 نومبر 2015 22:59

کراچی ۔ 25 نومبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔25 نومبر۔2015ء) کوریا کے سفیر سونگ جونگ ہوان نے پاکستان اور کوریا کے درمیان 2012ء سے تجارتی حجم میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تجارتی حجم میں کمی کی وجہ دونوں ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) نہ ہونا اور ایک دوسرے کی مارکیٹوں کو سمجھنے کا فقدان ہے، پاکستان اور کوریا کے درمیان دوطرفہ باہمی تجارتی حجم 2012ء میں 1.6 ارب ڈالر تھا جو 2014ء میں 27 فیصد کمی کے ساتھ 1.17 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو باعث تشویش ہے، پاکستان کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ کوریا کے دنیا بھر سے ایک ٹریلین کے تجارتی حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اور کوریا کے درمیان محدود تجارتی حجم توجہ طلب ہے۔

بدھ کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کوریا کے قونصل جنرل کِم ڈونگ گی ، منسٹر قونصلر چوئی سویونگ ، اکنامک افیئرز آفیسر نامِن ہونگ ، ڈائریکٹر کورین انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ پروموشن ایجنسی (کوٹرا) سون سوو یون، کیونگ ان سینتھیٹک کارپوریشن کوریا کے صدر و سی ای او شوسنگ یونگ ، کسکو کے مقامی ایجنٹ و پیگزیمپ کے ڈائریکٹر محمد پرویز، منیجنگ ڈائریکٹر پیگزیمپ سلیم ولی محمد، کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر، سینئر نائب صدر ضیاء احمد خان، سابق سینئر نائب صدر شمیم احمد فرپو، محمد ابراہیم کوسمبی اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

کوریا کے سفیر نے اپریل 2014ء میں کورین وزیراعظم کے دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں نے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کے لئے ممکنہ امکانات کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت کا جولائی 2015ء میں کوریا دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران بھی دونوں ممالک کے مابین ایف ٹی اے کے لئے مشترکہ طور پر امکانات کا جائزہ لینے کے لئے معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک کے ریسرچ ادارے ایک سال کے عرصے میں ایف ٹی ٓے سے متعلق مطالعے کو مکمل کریں گے۔

انہوں نے بزنس ٹو بزنس میٹنگز اور روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جو دونوں ممالک کی پرکشش مارکیٹوں میں گنجائش کے مطابق تجارت کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تجارتی وفود کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ تجارتی وفود دوطرفہ باہمی تجارتی حجم میں نمایاں اضافے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، پاکستان کے تجارتی وفود کوریا کی تجارتی نمائشوں میں جبکہ کورین تاجر پاکستان میں ہونے والی کاروباری تقریبات خصوصاً کراچی میں ”ایکسپو پاکستان“ میں شرکت کر سکتے ہیں جبکہ اسلام آباد میں بی او آئی کی حالیہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں کورین شرکت سے دوطرفہ تجارتی حجم کی بحالی میں بامعنی ثابت ہو گی۔

انہوں نے کورین سفارتخانے، کراچی میں قونصلیٹ اور کورین انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ پروموشن ایجنسی (کوٹرا) کی جانب سے کراچی چیمبر کو 24 گھنٹے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی تاکہ دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تجارت حجم کو فروغ دیا جا سکے۔ قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے کورین سفیر کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کراچی چیمبر کوریا کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے فروغ اور تجارت کی نئی راہوں کی تلاش کا خواہش مند ہے تاکہ پاکستان کے کوریا جیسے ممالک سے تعلقات بہتر ہوں اور تجارت کو فروغ حاصل ہو جس سے یقینی طور پر ملک میں جاری اقتصادی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اور کوریا کے درمیان تجارتی حجم ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، مالی سال2015 ء کے دوران پاکستان کی کوریا کے مجموعی برآمدات 336.42 ملین ڈالر ہو گئی ہیں جبکہ برآمدات 672.68 ملین ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے کورین سرمایہ کاروں کے لئے ایک خصوصی اکنامک زون قائم کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے قیام سے یقینی طور پر دونوں ملکوں کو فوائد حاصل ہوں گے۔

کے سی سی آئی کے صدر نے کہاکہ ہم پاکستان میں کورین سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعاون کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کراچی چیمبر اور کوریا کے چیمبرز کے مابین رابطوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔

انہوں نے کورین کمپنیوں کو کے سی سی آئی کے زیر اہتمام اگلے برس مارچ میں منعقد ہونے والی 13 ویں سالانہ ”مائی کراچی“ نمائش میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ نمائش میں 10 لاکھ سے زائد افراد ہر سال شرکت کرتے ہیں اور کورین تاجر و صنعتکار اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے کے علاوہ خوشگوار ماحول میں بزنس ٹو بزنس میٹنگ سے کراچی کی تاجر برادری کے ساتھ مستحکم رابطے استوار کر سکتے ہیں۔