انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹرعاصم حسین کو 4روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا

سپیشل پراسیکیوٹر رینجرز کا 4روزہ ریمانڈ پر پراسیکیوٹرجنرل سے اختلاف، رینجرز کے 14روزہ ریمانڈ کی استدعاکواسیکیوٹر جنرل نے تبدیل کردیا

جمعرات 26 نومبر 2015 17:19

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 نومبر۔2015ء) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سندھ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کو 4روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔پولیس نے انتہائی سیکیورٹی میں ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ پولیس اسٹیشن سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اﷲ پھلپوٹو کے روبرو پیش کیا، اس وقت ماحول بہت زیادہ جذباتی ہوگیا جب ڈاکٹر عاصم کو دیکھ کر ان کی اہلیہ اور بیٹی زار وقطار رونے لگیں۔

عدالت کے روبرو رینجرز کے لا آفیسر کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے جس پر رینجرز کے لا آفیسر نے اعتراض کیا کہ وہ قانون کے مطابق پیش نہیں ہوسکتے۔

(جاری ہے)

شہادت اعوان نے کہا کہ وہ استغاثہ کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔سماعت کے دوران پولیس نے ملزم کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی جب کہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور استدعا کی کہ مقدمہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے، گواہوں کے بیانات ابھی ریکارڈ نہیں کئے گئے، اس لئے انہیں 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔

اس موقع پر رینجرز کے وکیل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ میں شدید اختلاف رائے پیدا ہوا۔رینجرز کے لا آفیسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ 90 روزہ تحویل کے دوران ڈاکٹر عاصم سے کی گئی تحقیقات کے دوران کئی اہم شہادتیں سامنے آئی ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما سلیم شہزاد، انیس قائم خانی، رف صدیقی اور وسیم اختر کے کہنے پر ڈاکٹر عاصم نے اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا۔

اس لئے دیگر ملزمان کی گرفتاری اور ثبوت جمع حاصل کرنے کے لئے انہیں 14 روز کا ہی ریمانڈ دیا جائے۔دوسری جانب ریمانڈ کی مخالفت میں ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نقوی نے کہا کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو 95 روز اپنی تحویل میں رکھا۔ڈاکٹرعاصم پروفیشنل ڈاکٹرہیں ان کا کام یہ پتہ چلانا نہیں کہ مریض دہشت گرد ہے یا نہیں، آئین کا ارٹیکل 14 ڈاکٹرعاصم کو ہرقسم کے مریض کے علاج کا اختیار دیتا ہے،ان کے موکل ایک سیاستدان بھی ہیں، مقدمات سے ان کی ساکھ متاثرہوئی، حساس ادارے کی جے آئی ٹی نے ڈاکٹر عاصم سے ایک بند کمرے میں تحقیقات کی، اس دوران انہیں شدید خوف زدہ کیا گیا۔

وہ 95 دن اہل خانہ سے دور رہے ہیں تو انہیں ریمانڈ میں ہی دینا ہے تو انہیں ان کے گھر منتقل کیا جائے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دیا جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر عاصم کو 4 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیر ڈاکٹر عاصم کی نظر بندی کی90روزہ نظر بندی مکمل ہونے پر رینجرز حکام کی مدعیت میں ان کے خلاف نارتھ ناظم آباد تھانے میں مقدمہ نمبر 197/15 سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا, جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے نجی اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا۔ڈاکٹر عاصم کو 26اگست کو ہائیر ایجوکیشن کے دفتر سے گرفتار کیا گیاتھا۔گرفتاری کے وقت ڈاکٹرعاصم ڈاو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے متعلق اجلاس میں شریک تھے۔

متعلقہ عنوان :