گذشتہ 20سالوں کے دوران پاکستانی معیشت کو سیلابوں ، خشک سالی ، سمندری طوفانوں کے باعث سالانہ 400ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو ا، آنے والے دنوں میں ان میں مزید اضافہ ہوگا، موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں عالمی برادری کو پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجزاور خطرات سے آگاہ کرونگا

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامدکا فرانس روانگی سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 27 نومبر 2015 22:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 نومبر۔2015ء) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامدنے کہا ہے کہ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی ماہرین ، سائنسدانوں اور تحقیق دانوں کے ہمراہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام 30نومبر سے دوہفتہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں پاکستان کو درپیش موسمیاتی خطرات کو عالمی برادری کو آگاہ کر ینگے اور اس بات پر زور دے گا کہ عالمی برادری پاکستان کی ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مالی اورتکنیکی مدد فراہم کرے ۔

وہ جمعہ کو اپنے وفد کے ساتھ فرانس روانہ ہونے سے قبل یہاں وفاقی وزارت میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی حدت کا باعث بننے والی ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور اس لحاظ سے پاکستان عالمی سطح پر135ویں نمبر پر ہے۔

(جاری ہے)

تاہم موسمیاتی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ بیس سالوں کے دوران پاکستانی معیشت کو شدید اور عام ہوتے ہوئے سیلابوں ، خوشک سالی ، سمندری طوفانوں، سمندری چڑہاؤ میں اضافے کے باعث سالانہ چارسو بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہو ا ہے۔ اور اس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کانفرنس ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک جامع، پائیدار اور حقیقی عالمی معاہدہ تشکیل اور طے پانے کے لیے عالمی برادری کو اہم موقع فراہم کررہی ہے۔

متوقع ’پیرس معاہدے‘ کی شکل میں یہ عالمی کانفرنس ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے دور رس اقتصادی، سماجی، تکنیکی اور پالیسی اثرات اور مواقع کے ساتھ عالمی موسم کی صورت حال کی اشکال طے اور تبدیل کریگی۔پیرس اجلاس کا ایجنڈا اور دائرہ کار بہت سے عناصر پر مشتمل ہے، جو پاکستان کے لئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ عالمی معاہدہ برائے موسمیاتی تبدیلی، جو 1992 میں برازیل کے شہر RIO میں طئے پایا تھا، کا اکیسواں اجلاس ہے ۔

یہ محض اتفاق ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 1992 میں بھی RIO میں تشریف لے گئے تھے اور پئرس کے اجلاس ِ ہذا میں تشریف لے جارہے ہیں۔ ا س عالمی معاہدے میں جو گذشتہ اکیس سالوں میں پیش رفت ہوئی ہے اس میں Kyoto Protocol کا طئے پانا ، Bali Action Plan،Cancun Agreement، Durban PlatformاورDamage Warsaw Framework on Loss and قابلِ ذکر ہیں ۔ اس عالمی موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس کے مختلف مقاصد اورپہلوؤں پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر زاہد حامد نے میڈیا کو بتایا کہ کانفرنس ہذا کے دوران مندرجہ ذیل اہم پہلوؤں پر بین الاحکومتی مذکرات ہونگے: انٹرنیشنل کلائمیٹ فنانس ، استعداد سازی(Capacity building)،ٹیکنالوجی منتقلی نقصان اور تباہی کے بارے میں مکینزم اور REDD+ یا Reducing Emissions from Deforestation and Forest Degradation ہیں۔

زاہد حامد نے کہا کہ اس کانفرنس میں پاکستان عالمی برادری کے سامنے اس بات پر بھی زور دے گا کہ یقینا موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کے سامنے پاکستان کسی بھی ترقی پذیر ممالک کی طرح ناتواں ہے۔ لیکن عالمی برادری کو چاہیئے کہ اپنے اپنے نقطہ نظر اورعزم سے چیلنجز کو واضح طور پر موزوں مواقع میں تبدیل کر یں، ہر ملک کواس قابل بنا دے کہ موسمیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی بات چیت کے عمل کے دوران ایک ذمہ دار فریق کا کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے میڈیا کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ اس عالمی کانفر نس میں اور اس کے بعد بامقصد اور نتیجہ خیز شرکت اور مصروفیت کے لئے ایک وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے اچھی طرح واضح کردہ حکمت عملی کے ذریعے اجلاس سے مخصوص مقاصد کا حصول تجویز کیا گیا ہے۔ ان میں جو مقاصد شامل ہیں وہ یہ ہیں کہ ملکی معیشت کو آگے بڑھانے کے لئے ، توانائی، صنعتی طرز عمل، جنگلات اور زراعت کے شعبوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ترقی کا صاف اور پائیدار راستہ مکمل طور پر اپنانے کے لئے ملک کی تیاری کا اظہار کرنا؛اس حقیقت پر زور دینا کہ پاکستان کو موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اڈاپٹیشن (Adaptation)کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی برادری سے درکارمالی اور تکنیکی تعاون کے لئے اضافی طور پر اپنائے جانے والے اقدامات اور ضرورت کو مزید نمایاں کرنا؛ عالمی برادری کو اس بات پر قائل کیا جائے گا کہ پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہے اور پیرس میں درپیش زیادہ تر اہم عنوانات اور مسائل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کے قدوقامت کو بلند کرنا ہے۔

وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان اہم مقاصد کے حصول کی حکمت عملی کو بڑی نفاست اورمحنت سے مربوط کیا گیا ہے ۔ اسے بڑی احتیاط سے ہم آہنگ بھی کیا گیا ہے اور بین الاقوامی موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت کی عملی اور باہمی تعاون کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا اوراجلاس کے شرکاء کے لئے قابل رسائی دستیاب وسائل، مواقع اور ذرائع کا مکمل استعمال کیا جائے گا۔اس مجموعی حکمت عملی کا مقصد اس انتہائی اہم عالمی تقریب سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنا اور پاکستان کی صورت حال کو قائدانہ انداز میں اور پرکشش طریقے سے نمایاں کرنااور اپنی تخفیف اور اپنانے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مالی اور تکنیکی تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لئے کچھ ٹھوس شراکت داریاں حاصل کرنا ہے۔

متعلقہ عنوان :