پنجاب یونیورسٹی سینڈیکیٹ کا اجلاس، ڈاکٹر منصور سرور نے کارروائی سے بچنے کیلئے پھر میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرا دیا

ہفتہ 28 نومبر 2015 20:04

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 نومبر۔2015ء ) پنجاب یونیورسٹی سینڈیکیٹ کا 1717 واں اجلاس وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ڈاکٹر منصور سرور کی غیر قانونی تقرری کے کیس پر بحث کی گئی۔ ڈاکٹر منصور سرور کو سینڈیکیٹ نے ذاتی شنوائی کے لئے تیسرا موقع فراہم کیا تھا تاہم ڈاکٹر منصور سرور کے بھائی نے تیسری مرتبہ بھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ جمع کرادیا کہ ڈاکٹر منصور سرور کو پاخانے لگے ہوئے ہیں اور انہیں تین دن آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔

ایڈیشنل رجسٹرار ڈاکٹر کامران عابد نے اجلاس کو بتایا کہ جناح ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ سرٹیفیکٹ پر نہ تو ہسپتال کی مہر ہے نہ ہی کسی کے دستخط ہیں اورنہ ہی کسی ڈاکٹر کا نام لکھا ہے۔

(جاری ہے)

سینڈیکیٹ نے ڈاکٹر منصور سرور کی تیسری مرتبہ عدم حاضری کا سخت نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں اگر ڈاکٹر منصور سرور آگئے تو انہیں سن کر اور اگر نہ آئے تو سنے بغیر کیس کا فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ ہر مرتبہ وہ سینڈیکیٹ کے اجلاس سے ایک روز قبل بیمار ہو جاتے ہیں اس سے قبل ان کی ایک بھی میڈیکل لیو نہیں ہے۔

جبکہ یہ امر قابل غور ہے کہ دفتری ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر نصیر کی رٹ میں اٹھائے گئے سوالات درست ثابت ہوچکے ہیں۔ سینڈیکیٹ کے اجلاس میں ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف بائیو کیمسٹری اور بائیو ٹیکنالوجی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر امتل جمیل سمیع کو ہٹانے کے احکامات کی اتفاقِ رائے سے منظوری دی گئی اس سلسلے میں ڈاکٹر امتل جمیل سمیع اور دیگر تمام فیکلٹی ممبران جو کہ شکایت کنندہ تھے انہیں شنوائی بھی دی گئے جس کے بعد سینڈیکیٹ کے ممبران نے متفقہ طور پر ڈاکٹر امتل جمیل سمیع کی بطور ڈائریکٹر ہٹائے جانے کے احکامات کی توثیق کر دی۔

ڈاکٹر امتل جمیل کے خلاف ادارے کے تمام اساتذہ نے مختلف نوعیت کی اٹھارہ درخواستیں اور یاددہانی کے متعدد خطوط جمع کرائے تھے۔ جن میں ان کی بطور پروفیسر اہلیت کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواستوں کے مطابق ڈاکٹر امتل جمیل سمیع نے برطانیہ میں رہ کر تحقیق کرنے کا جو تجربہ لکھ کر فائدہ حاصل کیا ہے اسی دوران وہ دیپالپورکالج میں پڑھا رہی تھیں اور یونیورسٹی کی دو کمیٹیاں ان کو بطور پروفیسر نا اہل قرار دے چکی ہیں۔

مختلف درخواستوں پر انکوائری کے بعد شعبہ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نعیم خان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امتل جمیل ادارے کے انتظامی امور نبٹانے اور شفافیت برقرار رکھنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں ۔ ان کا فیکلٹی کے ساتھ رویہ انتہائی جانبدارانہ تھا اور ساتھی اساتذہ کو دھمکیاں بھی دیتی تھیں مزید برآں وہ ادارے کے تمام فیکلٹی ممبران کا اعتماد کھو چکی تھیں۔

ڈین نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ ڈاکٹر امتل جمیل کی بطور پروفیسر تقرری کو یونیورسٹی قوانین کے مطابق جانچ پڑتال کی جائے۔ اس سے قبل ڈاکٹر امتل جمیل نے امین اطہر پر ہراسگی کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں ڈاکٹر امین اطہر سابق ڈائریکٹر نے کہا کہا کہ ذہنی توازن درست نہیں ہے اور وہ کرپٹ خاتون ہیں۔ اجلاس میں شعبہ کیمسٹری کے ڈاکٹر مکشوف اطہر بھی اپنی تقرری چیلنج کئے جانے پر اپنے کیس کا دفاع کرنے کے لئے پیش نہ ہوئے۔

ایجنڈا آئٹم پر بریف کرتے ہوئے ڈاکٹر کامران عابد نے کہا کہ ڈاکٹر مکشوف اطہر کے شعبے میں انہیں کیس کا دفاع کرنے کے لئے اجلاس میں پیش ہونے کا خط اور متعلقہ کاغذات پیش کئے گئے مگر ان کے عملے نے کاغذات واپس بھجوا دئے ۔ ڈاکٹر مکشوف کو بذریعہ ای میل، ایس ایم ایس ، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے بھی پیغام بھیجے گئے تاہم کوئی جواب نہیں ملا اور جمعہ کے روز چھٹی کی درخواست دے دی۔

حقائق کو جانچنے اور درخواست گزار ڈاکٹر زید محمود کو سننے کے بعدڈاکٹر مکشوف اطہر کی بطور پروفیسر تقرری سے متعلق مکمل انکوائری کرنے سے متعلق کمیٹی بنانے کی منظوری دے دی۔ سینڈیکیٹ کے اجلاس میں چوبرجی کے نزدیک یونیورسٹی گراوٗند میں سے آٹھ کنال زمین اورنج ٹرین پراجیکٹ کے لئے حکومت پنجاب کو دینے کے لئے اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا تاہم اس سلسلے میں حکومت پنجاب سے درخواست کی جائے گی کہ بدلے میں حکومت تحقیق کے لئے پیسے فراہم کرے گی اور ایل ڈی اے کی جانب سے یونیورسٹی کے متفرق حل طلب مسائل کو حل کیا جائے گے۔

اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی اور ایل ڈی اے اور واسا کے مابین معاہدہ پر دستخط بھی کئے جائیں گے۔ اجلاس میں شعبہ جیالوجی کے سابق ڈائریکٹر کو پیڈا ایکٹ کے تحت پرسنل ہئیرنگ کا نوٹس جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔اس سلسلے میں سینڈیکیٹ نے اس سے قبل پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائری کا حکم دیا تھا جس کی رپورٹ آج ممبران کو پیش کی گئی۔

متعلقہ عنوان :