یونائیٹڈ نیشنز کلائمیٹ سمٹ کا آغاز ‘140سے زائدممالک کے سربراہان شرکت کریں گے

Umer Jamshaid عمر جمشید پیر 30 نومبر 2015 11:03

پیرس(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔30 نومبر۔2015ء)ماحولیاتی تبدیلیوں کے سدِ باب کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام آج پیر کے روزسے پیرس میں ہونے والے بین الاقوامی اجلاس سے ایک روز قبل دنیا کے مختلف شہروں میں ماحولیات کے تحفظ کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز کلائمیٹ سمٹ میں شرکت کے لیے مختلف ملکوں کے سربراہان پیرس پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

11 دسمبر تک جاری رہنے والے اجلاس میں 195 ممالک کی نمائندگی ہوگی جن میں ڈیڑھ سو سے زائد ملکوں کے سربراہان کی شرکت متوقع ہے۔اجلاس میں شریک ہونے والوں میں امریکی صدر براک اوباما، چین کے صدر ڑی جن پنگ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے علاوہ دنیا کی تمام بڑی معیشتوں اور ترقی یافتہ و ترقی پذیر ملکوں کے سربراہان بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس پہنچ گئے ہیں۔اجلاس کا باقاعدہ آغاز آج پیر کو ہوگا لیکن مختلف ملکوں کے سفارت کاروں کے درمیان اتوار سے ہی غیر رسمی بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اجلاس کا ہدف عالمی رہنماؤں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام اور دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی اوسط شرح میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرنے پرآمادہ کرنا ہے۔

فرانسیسی حکام کے مطابق پیرس میں دو ہفتے قبل ہونے والے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں اجلاس کی سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔کانفرنس کے مقام کی سکیورٹی 2800 پولیس اور فوجی اہلکاروں کے سپرد ہے جب کہ 6300 سے زائد اہلکاروں کو پیرس کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔اجلاس کے آغاز سے ایک روز قبل دنیا کے کئی بڑے شہروں میں ماحولیات کے تحفظ کیلیے سرگرم کارکنوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے بڑے مظاہرے کیے ہیں۔

پیرس، لندن، نیویارک، ساؤتھپولو، برلن اور آسٹریلیا کے شہر پرتھ سمیت دیگر مقامات پر ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور عالمی رہنماؤں سے سربراہی اجلاس کے دوران ٹھوس اقدامات پر اتفاق کرنے کا مطالبہ کیا۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے 2009ء میں کوپن ہیگن میں ہونے والا اسی نوعیت کا سربراہی اجلاس امیر اور غریب ملکوں کے درمیان کاربن کے اخراج پر قدغنیں لگانے کے معاملے پر اختلافات کی نذر ہوگیا تھا۔

کو پیرس کے ایک مرکزی چوک پر 20 ہزار سے زائد مظاہرین نے اپنے جوتے رکھ کر ماحولیاتی تحفظ کے حق میں علامتی احتجاج کیا۔اس انوکھے مظاہرے کی اپیل ایک غیر سرکاری تنظیم نے کی تھی جو سربراہی اجلاس کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے کسی نتیجہ خیز معاہدے پر اتفاقِ رائے کے حق میں مہم چلا رہی ہے۔پیرس کے چوک پر اپنے جوتے چھوڑنے والوں میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون بھی شامل تھے جب کہ منتظمین کے مطابق احتجاج کے لیے ویٹیکن نے پوپ فرانسس کی جانب سے بھی جوتوں کا ایک جوڑا بھیجا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ چوک پر جمع ہونے والے جوتوں کے 20 ہزار جوڑوں کا وزن چار ٹن کے لگ بھگ ہے۔ایک بین القوامی نشریاتی ادارے کے مطابق ماحولیاتی تحفظ کے حق میں ہونے والی ریلیوں کے سلسلے میں مجموعی طور پر دو ہزار مختلف ایونٹس منعقد کیے جا رہے ہیں۔ ریلیوں کا اہتمام جن اہم شہروں میں کیا گیا ہے ان میں سڈنی، برلن، لندن، ساوٴ پولو اور نیویارک شامل ہیں۔

اس طرح پیرس میں ہونے والی کانفرنس سے محض ایک روز قبل ہونے والے یہ مظاہرے کلائمیٹ ایکشن کے حوالے سے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ آسٹریلوی شہر سڈنی میں ہونے والے مارچ میں اندازوں کے مطابق 45000 افراد نے شرکت کی ہے۔ شرکاء نے شہر کے وسطی حصے سے اوپرا ہاوٴس تک مارچ کیا۔ سڈنی کے لارڈ میئر کلوور مور بھی شریک ہوئے جنہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں اسے ماحولیاتی تحفظ کے لیے اس بندرگاہی شہر میں منعقد ہونے والی سب سے بڑی ریلی قرار دیا۔

ریلی کے شرکاء نے ماحولیاتی تحفظ کے حق میں بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ہانگ کانگ میں ہونے والے مارچ میں دو مظاہرین نے فوم سے بنے پولر بیئرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’بے گھر اور بھوکے‘ اور ’خدارا مدد کیجیے‘۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قطبین پر برف پگھل رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف پولر بیئر سمیت وہاں موجود زندگی خطرے میں ہے بلکہ اس وجہ سے سمندروں کی سطح میں بھی اضافے کا خطرہ ہے جو دنیا کے نشیبی علاقوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیوٴل میں لوگوں نے ڈرم بجا کر اور رقص کر کے مظاہرہ کیا۔ ہفتے کے روز مذہبی گروپوں کی طرف سے مختلف پٹیشنز جمع کی گئیں جن پر 1.8 ملین افراد کے دستخط تھے۔ ان پیٹیشنز میں عالمی حدت سے نمٹنے اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاوٴ کے لیے موٴثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کچھ ماحول دوست حلقوں کا کہنا ہے کہ 2050ء تک توانائی کے معدنی ذخائر انحصار بتدریج ختم کر دیا جانا چاہیے اور توانائی سو فیصدی متبادل اور قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جانی چاہیے۔

پیرس میں شروع ہونے والی کانفرنس کا مقصد ایک ایسے عالمگیر معاہدے پر اتفاقِ رائے ہے، جو 2020ء سے لاگو ہو سکے گا اور جس میں طے کردہ اقدامات کی مدد سے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔