تارکین وطن بارے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا

پیر 30 نومبر 2015 14:30

برسلز(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 نومبر۔2015ء) تارکین وطن کے حوالے سے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین اور ترک وزیراعظم احمد داوٴد اوغلو کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں معاہدے پر اتفاق کیا گیا۔معاہدے کے تحت ترکی، یورپی ممالک جانے کے خواہشمند تارکین وطن کو اپنی سرحدوں پر روکے گا، جس کے بدلے اسے یورپی یونین کی جانب سے تقریباً 22 لاکھ شامی مہاجرین کے لیے 3 ارب ڈالر سے زائد کی امداد، ترک شہریوں کے لیے یورپ کے ویزا فری سروس کی سہولت اور یورپی بلاک میں ترکی کی دوبارہ شمولیت کے لیے دوبارہ بات چیت کا آغاز شامل ہے۔

معاہدے کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان پناہ گزینوں کے حوالے سے طے پائے جانے والے معاہدے پر فوری عمل کا آغاز ہوگا۔

(جاری ہے)

معاہدہ طے پانے کے بعد ترک وزیر اعظم نے اپنے بیان میں نئے باب کے آغاز پر یورپی رہنماوٴں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس دن کو یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کا ’تاریخی دن‘ قرار دیا۔دوسری جانب انقرہ کو امید ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی درخواست کو ایک نئی تحریک بھی ملے گی۔

واضح رہے کہ ترکی میں اِس وقت بائیس لاکھ کے قریب شامی مہاجرین موجود ہیں۔ زیادہ تر شامی اور عراقی مہاجرین یورپ کا سفر ترکی کے راستے ہی کرتے ہیں، اور یورپی ممالک کا مطالبہ ہے کہ انقرہ مہاجرین کے اس بہاوٴ کو کم کرنے میں زیادہ بھرپور کردار ادا کرے۔ دوسری جانب ترکی کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے یورپ کو اس کی مالی امداد کرنا ہو گی۔

اجلاس میں ترکی کی نمائندگی وزیراعظم احمد داوٴد اوگلو نے کی۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اجلاس میں شریک تھے۔ ترکی کے ابھرتے کردار کی حمایت جرمن چانسلر اینجیلا مرکل بھی کر رہی ہیں۔ تاہم فریقین کی جانب سے شرائط لگانا لازمی سی بات ہے۔ یورپ ترکی کی مالی معاونت اور اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے بلاک میں اس کی شمولیت کے عوض مہاجرین کے مسئلے پر انقرہ کا موٴثر تعاون چاہتا ہے۔ اجلاس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کے رہنماوٴں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ ترک افراد کے یورپ سفر کے لیے اکتوبر سن دو ہزار سولہ تک ویزے کی شرط اٹھا لی جائے گی، تاہم ترکی کو اس وقت تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے یہاں سے مہاجرین کی یورپ منتقلی کو قابو میں رکھے گا۔

متعلقہ عنوان :