عام انتخابات 2013ء کے بعد بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مابین معاہدے پر (ن) لیگ کی قیادت کو مشکلات کا سامنا

پیر 30 نومبر 2015 16:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔30 نومبر۔2015ء) عام انتخابات 2013ء کے بعد بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کے حوالے سے (ن) لیگ کی قیادت کو مشکلات کا سامنا ہے، معاہدے کے مطابق ڈھائی سال بعد صوبے کا اقتدارنیشنل پارٹی سے لے کر مسلم لیگ (ن) کے حوالے کیا جانا ہے تاہم حکومت وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی۔

میڈیا رپورٹس کے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان صوبائی اسمبلی نے بغاوت کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ان اراکین کا خیال ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان مسلسل نظر انداز ہوتے رہے ہیں جس سے ان کے حلقوں میں بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور وہ اپنے حلقوں کی عوام کی حمایت لینے کے لیے بھی معاہدے کی خلاف ورزی پر بغاوت کر لیں گے۔

(جاری ہے)

بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ 22 ارکان کی طاقت رکھنے کے باوجود (ن) لیگ کو اقتدار سے دوررکھا گیا۔ اگر مری معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو بلوچستان حکومت میں شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین اسمبلی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلوچستان حکومت کے کاغذات ریکارڈ پر ہیں کہ پی ایس ڈی پی کے فنڈز میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کو نظرانداز کرکے 70 سے80 فیصد فنڈز دوسری جماعت والے اپنے علاقوں میں لے گئے ہیں۔ کوئٹہ میں میئر شپ مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے جیت رہی تھی مگر وہاں پر بھی مسلم لیگ (ن) کو نظرانداز کرکے دوسری جماعت کو میئر شپ دی گئی، اس فیصلے پر بھی مسلم لیگ (ن) کے ارکین شدید نالاں ہیں۔

متعلقہ عنوان :