روسی صدر ثابت کریں کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں سے تیل خرید رہا ہے

پوتن کا الزام درست ثابت ہو تو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوں‘ترک صدر

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 1 دسمبر 2015 11:43

انقرہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔یکم دسمبر۔2015ء) ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنے اس الزام کو ثابت کریں کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں سے تیل خرید رہا ہے۔انھوں نے روسی الزام کو ’بہتان‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ بات درست ثابت ہو تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے پیرس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ترکی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے روسی جنگی طیارے کو شام کی سرحد کے قریب خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کے ساتھ تیل کی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے گرایا۔رجب اردوغان نے یہ بھی کہا کہ ’اگر آپ کوئی الزام عائد کرتے ہیں تو اسے ثابت بھی کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

اگر آپ کے پاس کوئی دستاویزات ہیں تو انھیں سامنے لائیے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمارے تیل حاصل کرنے کے ذرائع سب کے سامنے ہیں۔ ہم تیل اور قدرتی گیس روس سے خریدتے ہیں۔ ہم ایران، آذربائیجان، عراق، الجزائر، قطر اور نائجیریا کے گاہک ہیں اور انھی ممالک سے تیل اور گیس خریدتے ہیں۔ بہتان طرازی ان کی روایت ہے اور بہتان لگا کر آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ روس کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کا جواب دینے کے سلسلے میں بھی ان کا ملک تحمل سے کام لے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ جذباتی بیانات دو ایسے ممالک کے لیے مثبت اقدام نہیں جن کے تعلقات سٹریٹیجک سطح کی شراکت داری سے تعبیر کیے جاتے ہوں۔اس سے قبل فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس یہ سوچنے کی تمام وجوہات موجود ہیں کہ ہمارے جنگی طیارے کو ترک حدود میں داخل ہونے والی تیل کی سپلائی لائنز کو محفوظ رکھنے کے لیے گرایا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایسی معلومات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ کا تیل ترک حدود سے گزرتا ہے۔‘تاہم ترکی نے دولت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی اتحاد کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں کا حصہ ہے۔24 نومبر کو شام کی سرحد کے قریب گرائے جانے والے روسی طیارے کا ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دوسرے پائلٹ کو بچا لیا گیا تھا۔

ترکی کا کہنا ہے کہ روس کا جبگی طیارہ اس کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا جبکہ روس نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔واضح رہے کہ روس شام میں صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں سمیت دولت اسلامیہ کو فضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنا رہا ہے۔روس ترکی پر اس کے جنگی طیارے کو گرانے کے بعد سے کئی پابندیاں بھی لگا چکا ہے جن میں ترکی سے کھانے کی اشیا کی درآمدات اور ویزا فری سفر پر پابندی شامل ہے۔

دولت اسلامیہ زیادہ تر پیسہ تیل کی غیر قانونی فروخت سے کماتا ہے تاہم ترکی اس کے ساتھ تیل کی تجارت میں شامل ہونے کی سختی کے ساتھ تردید کر چکا ہے۔ دوسری جانب امریکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ ’ترکی اور امریکی ذرائع سے یہ ثبوت ملے ہیں کہ روس کے جنگی طیارے نے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔

متعلقہ عنوان :