شام میں ایرانی قربانیوں کے ثمرات روس سمیٹ رہا ہے

تہران، دمشق میں اپنے مفادات کا ہر صورت میں تحفظ کرے گا: قربان اوغلی

منگل 1 دسمبر 2015 13:06

تہران(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔30 نومبر۔2015ء) ایران کیایک سابق سفارت کار نے شام کے بحران کے حوالے سے ایران اور روس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ماسکو شام میں تہران کی قربانیوں کے ثمرات خود سمیٹنا چاہتا ہے۔ایرانی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے امور مشرق وسطیٰ جاوید قربان اوغلی نے کہا کہ شام کے معاملے پر ایران اور روس ایک صفحے پرنہیں۔

ماسکو ایران کی قربانیوں کے ثمرات بھی خود ہی سمیٹ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار سال کے بعد آج بھی ایران روس اور دوسرے اتحادیوں کی مدد سے شام میں صدر بشارالاسد کو اقتدار پر قائم رکھنے کی محوری حکمت عملی کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے مگر ایران اور شام کے بارے میں روس کی نیت میں فتور دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

روس کی ڈرامائی پالیسی صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے اور وہ تہران اور دمشق کو محض اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

جاوید اوغلی کا کہنا تھا کہ شام میں صدر بشارلاسد کا اقتدار تو بچالیا گیا مگر اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ پورا شام مقتل بن چکا ہے۔ ملک تباہ وبرباد ہے۔ اڑھائی لاکھ شامی شہری لقمہ اجل بن چکے اور ایک کروڑ لوگ بے گھر ہیں۔ اب مغرب اور ایران کی ملی جلی کوششوں سے بحران کے حل کے لیے کچھ پیش رفت کی جا رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں سابق ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں ایرانی کردار تسلیم کرنا جوہری تنازع پر ہونے والے سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔

جوہری پرگرام پر سمجھوتے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے ایران پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص شام کے تنازع کے حل میں ایران کو غیرمعمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کی دوسرے ویانا اجلاس میں آئندہ سال کے آغاز سے شام میں جنگ بندی اور چھ ماہ میں عبوری حکومت کے قیام جب کہ 18 ماہ میں شام میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تجاویز پر اتفاق کیا گیا تھا مگر ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ آیا شام کی اپوزیشن کی نمائندگی کون کرے گا نیز بشارالاسد کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں قربان جاوید اوغلی نے کہا ہے کہ ان کا ملک نہ صرف بشارالاسد کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کے مطالبے پرقائم ہے بلکہ ہم دمشق میں اپنے مفادات کو بھی کسی صورت میں نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اس لیے تہران نے عالمی برادری کے سامنے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ ہم شام میں بشارالاسد کے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا بھی تحفظ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں جاوید قربانی کا کہنا تھا کہ روس اتحادی ہونے کے باوجود شام میں ایران کے کردار کو محدود کررہا ہے۔ ہماری قربانیوں کے ثمرات سمیٹنا روس کی غلطی ہوگی کیونکہ ہم پچھلے کئی سال سے شام میں قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ آج روس نے شام میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے ثمرات سمیٹنا شروع کردیے ہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بتائیں کہ شام میں ان کے کتنے سپاہی اور رضاکار جان بحق ہوئے ہیں اور ماسکو نے اب تک شام کو بچانے کے لیے کتنا پیسا دیا ہے۔

میں یہ بات کھل کرکہہ رہا ہوں کہ صدر پیوٹن ایرانی اور شامی شہریوں کی قربانیوں کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے سابق ڈی جی برائے مشرق وسطیٰ امور نے کہا کہ روس کے شام میں فوجی مداخلت کے دو اہم اہداف ہیں۔ پہلا ہدف مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈوں کا تحفظ اور دوسرا مقصد یوکرائن جیسے تنازعات پر مغرب کو اپنی مخالفت کا شام کے محاذ جنگ پر احساس دلانا ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں قربان جاوید اوغلی نے کہا کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے سے ایران کے لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ساتھ بھی رابط ختم ہوجائیں گے کیونکہ حزب اللہ کے ساتھ تہران کے رابطوں اور دو طرفہ لین دین کا سلسلہ شام کے ذریعے ہو رہا ہے۔ شام ایران کے ہاتھ سے نکل گیا تو حزب اللہ بھی ایران سے دور ہوجائیگی۔ایران کیایک سابق سفارت کار نے شام کے بحران کے حوالے سے ایران اور روس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ماسکو شام میں تہران کی قربانیوں کے ثمرات خود سمیٹنا چاہتا ہے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی"خبر آن لائن" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے امور مشرق وسطیٰ جاوید قربان اوغلی نے کہا کہ شام کے معاملے پر ایران اور روس ایک صفحے پرنہیں۔ ماسکو ایران کی قربانیوں کے ثمرات بھی خود ہی سمیٹ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار سال کے بعد آج بھی ایران روس اور دوسرے اتحادیوں کی مدد سے شام میں صدر بشارالاسد کو اقتدار پر قائم رکھنے کی محوری حکمت عملی کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے مگر ایران اور شام کے بارے میں روس کی نیت میں فتور دکھائی دیتا ہے۔

روس کی ڈرامائی پالیسی صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے اور وہ تہران اور دمشق کو محض اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں جاوید اوغلی کا کہنا تھا کہ شام میں صدر بشارلاسد کا اقتدار تو بچالیا گیا مگر اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ پورا شام مقتل بن چکا ہے۔ ملک تباہ وبرباد ہے۔ اڑھائی لاکھ شامی شہری لقمہ اجل بن چکے اور ایک کروڑ لوگ بے گھر ہیں۔

اب مغرب اور ایران کی ملی جلی کوششوں سے بحران کے حل کے لیے کچھ پیش رفت کی جا رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں سابق ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں ایرانی کردار تسلیم کرنا جوہری تنازع پر ہونے والے سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ جوہری پرگرام پر سمجھوتے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے ایران پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

بالخصوص شام کے تنازع کے حل میں ایران کو غیرمعمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کی دوسرے ویانا اجلاس میں آئندہ سال کے آغاز سے شام میں جنگ بندی اور چھ ماہ میں عبوری حکومت کے قیام جب کہ 18 ماہ میں شام میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تجاویز پر اتفاق کیا گیا تھا مگر ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ آیا شام کی اپوزیشن کی نمائندگی کون کرے گا نیز بشارالاسد کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں قربان جاوید اوغلی نے کہا ہے کہ ان کا ملک نہ صرف بشارالاسد کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کے مطالبے پرقائم ہے بلکہ ہم دمشق میں اپنے مفادات کو بھی کسی صورت میں نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اس لیے تہران نے عالمی برادری کے سامنے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ ہم شام میں بشارالاسد کے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا بھی تحفظ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں جاوید قربانی کا کہنا تھا کہ روس اتحادی ہونے کے باوجود شام میں ایران کے کردار کو محدود کررہا ہے۔ ہماری قربانیوں کے ثمرات سمیٹنا روس کی غلطی ہوگی کیونکہ ہم پچھلے کئی سال سے شام میں قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ آج روس نے شام میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے ثمرات سمیٹنا شروع کردیے ہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بتائیں کہ شام میں ان کے کتنے سپاہی اور رضاکار جان بحق ہوئے ہیں اور ماسکو نے اب تک شام کو بچانے کے لیے کتنا پیسا دیا ہے۔

میں یہ بات کھل کرکہہ رہا ہوں کہ صدر پیوٹن ایرانی اور شامی شہریوں کی قربانیوں کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں ایرانی وزارت خارجہ کے سابق ڈی جی برائے مشرق وسطیٰ امور نے کہا کہ روس کے شام میں فوجی مداخلت کے دو اہم اہداف ہیں۔ پہلا ہدف مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈوں کا تحفظ اور دوسرا مقصد یوکرائن جیسے تنازعات پر مغرب کو اپنی مخالفت کا شام کے محاذ جنگ پر احساس دلانا ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں قربان جاوید اوغلی نے کہا کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے سے ایران کے لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ساتھ بھی رابط ختم ہوجائیں گے کیونکہ حزب اللہ کے ساتھ تہران کے رابطوں اور دو طرفہ لین دین کا سلسلہ شام کے ذریعے ہو رہا ہے۔ شام ایران کے ہاتھ سے نکل گیا تو حزب اللہ بھی ایران سے دور ہوجائیگی۔

متعلقہ عنوان :