ہمارے لئے کوئی اچھا کوئی برا دہشتگرد نہیں جو افغانستان میں امن کیلئے خطرہ بنے وہ ہمارا دوست نہیں ،محمد نواز شریف

امریکہ اور چین بھی اہم حلیف ہیں ٗمفاہمتی عمل میں تعاون کے ساتھ ساتھ پاکستان دہشتگردوں کی نقل و حرکت پر قابو پانے کیلئے بہتر سرحدی انتظام پر سنجیدہ بات چیت پر بھی تیار ہے ٗ افغان صدر سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم کا بیان

منگل 1 دسمبر 2015 19:31

پیرس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم دسمبر۔2015ء) وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ علاقے میں امن اور استحکام کیلئے افغانستان میں امن ناگزیر ہے اسلئے پاکستان افغانستان میں امن اور مفاہمت کیلئے حمایت جاری رکھے گا ٗ دہشتگردی اور انتہا پسندی ہمارے مشترکہ دشمن ہیں ہمارے لئے کوئی اچھا کوئی برا دہشتگرد نہیں جو افغانستان میں امن کیلئے خطرہ بنے وہ ہمارا دوست نہیں ٗپاکستان الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتا ٗ ہمیں یقین ہے کہ افغان حکومت اورطالبان بامقصد مفاہمت کیلئے ٹھوس تجاویز اور خیالات کے ساتھ آگے بڑھیں گے ٗ امریکہ اور چین بھی اہم حلیف ہیں ٗمفاہمتی عمل میں تعاون کے ساتھ ساتھ پاکستان دہشتگردوں کی نقل و حرکت پر قابو پانے کیلئے بہتر سرحدی انتظام پر سنجیدہ بات چیت پر بھی تیار ہے۔

(جاری ہے)

افغان صدر اشرف غنی سے گزشتہ روز یہاں ہونے والی ملاقات کے بعد منگل کو دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہاکہ میری صدر اشرف غنی سے ملاقات انتہائی مفید رہی ہے جہاں ہم دونوں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں ہمیں باہمی دلچسپی کے امور خاص طورپر امن اور مفاہمت کے حوالے سے بات چیت کا موقع ملا ٗپاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے ہمارے عوام صدیوں سے سیاسی ٗ ثقافتی اور معاشی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کیلئے افغانستان میں امن ناگزیر ہے اس لئے پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کی حمایت کرتا ہے اور اس ضمن میں تعاون جاری رہے گا ۔انہوں نے کہاکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں ہم نے افغانستان میں امن کیلئے خطرہ بننے والے دہشتگردوں کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں اور اسی طرح پاکستان میں گڑبڑ کر نے والے دہشتگرد افغانستان کے دوست نہیں ۔

وزیر اعظم نے کہاکہ یہ بات اہم ہے کہ دونوں ملک اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشتگرد گروپ دوسرے ملک کے خلاف پناہ گاہیں حاصل نہ کر سکیں پاکستان نے تمام دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا عزم کر رکھا ہے اور ہمارے لئے کوئی اچھا اور کوئی برا دہشتگرد نہیں پاکستان کسی شخص یا گروپ کو افغانستان یا کہیں بھی دہشتگردی کیلئے اپنی سر گزمین استعمال کر نے کی اجازت نہیں دیگا ہم توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان اور دیگرممالک بھی اسی قسم کے عزم کا اظہار کرینگے ۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان میں عدم استحکام کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے دوراستے ہیں فوجی کارروائی یا مذاکرات کے ذریعے امن کا عمل۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے صرف طاقت کا استعمال کافی نہیں ۔دوسری جانب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سنجیدگی سے ٹھوس اور بامقصد مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جائے تو افغانستان میں پائیدارامن کیلئے بہتر امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔

وزیر اعظم نے کہاکہ اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغان قیادت کے اپنے مفاہمتی عمل میں تعاون کیلئے خلوص سے کوششیں کیں سات جولائی کو مری میں ہونے والی ملاقات نہ صرف مفید تھی بلکہ اس سے افغانستان میں تشدد میں کمی کے امکانات بھی روشن ہوئے تھے ۔نواز شریف نے کہاکہ پاکستان الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ امن اور مفاہمتی عمل کو دوبارہ بحال کر نے کیلئے اقدامات پر تیار ہے چونکہ یہ افغان قیادت کا اپنا عمل ہے اس لئے ہمیں اعتماد ہے کہ افغان حکومت اور طالبان ٹھوس خیالات اور تجاویز کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور با مقصد مفاہمتی مذاکرات میں شریک ہونگے ۔

پاکستان ایسے کسی بھی اقدام کیلئے مکمل مدد او ر اور تعاون پر تیار ہے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ اور چین جو مری مفاہمتی عمل کیساتھ تھے اس عمل کے اہم حلیف ہیں اس ضمن میں ہم اپنی دوست طاقتوں کے تعاون کا خیر مقدم کرینگے پاکستان مفاہمتی عمل دوبارہ شروع کر نے کیلئے چار فریقی اقدام کا خیر مقدم کر تا ہے اس ضمن میں ہارٹ آف ایشیاء استنبول عمل کے تحت اجلاس نو دسمبر کو اسلام آباد میں ہورہا ہے جس سے افغانستان میں نتیجہ خیز مفاہمت کیلئے مشترکہ روڈ میپ تیار کر نے کیلئے خوش آئند موقع ملے گا ۔

انہوں نے کہاکہ میں صدر اشرف غنی کے دورہ اسلام آباد کا منتظر ہوں جہاں مشترکہ طورپر ہارٹ آف ایشیاء کے اجلاس کا افتتاح کرینگے اور اس موقع پر مزید بات چیت ہوگی امریکہ اور چین مفاہمتی عمل کے سلسلے کووہاں سے آگے بڑھانے کیلئے ملکر کام کر سکتے ہیں جہاں سے یہ سلسلہ جولائی 2015میں ٹوٹا تھا ۔نواز شریف نے کہاکہ مفاہمتی عمل میں تعاون کے ساتھ ساتھ پاکستان بہتر سرحدی انتظام کیلئے سنجیدہ بات چیت پر بھی تیار ہے تاکہ دہشتگردوں کی سرحد پار نقل وحرکت کو روکا جاسکے اس ضمن میں جلد ازجلد ایس او پیز کو حتمی شکل دینا ضروری ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کی عوام کئی عشروں سے دہشتگردی کے مشترکہ خطرے کا سامنا کررہے ہیں پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے تحت دہشتگردی کے خلاف مہم میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ہم نے جامع قومی لائحہ عمل بھی بنایا ہے پاکستان افغانستان سے سیاسی ٗ سفارتی ٗ فوجی اور انٹیلی جنس کی سطح پر قریبی رابطے کیلئے تیار ہے تاکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی نتیجہ تک پہنچایا جاسکے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی حکومت ٗ قیادت اور عوام افغانستان کے عوام اورقیادت کا دل سے احترام کرتے ہیں ہم مخلصانہ طورپر امید رکھتے ہیں کہ دونوں ملک اپنے عوام کی توقعات پوری کر نے کیلئے ملکر کام کریں اور تمام دہشتگردوں کو شکست دینے کیلئے قریبی تعاون کے ذریعے خطے میں پائیدار امن قائم کیا جائے ۔