توانائی کے شعبے میں عدم اصلاحات سے ملک دیوالیہ ہو جائے گا‘نو ماہ گزرنے کے باوجود ایل این جی امپورٹ کا معاہدہ نہ ہو سکا‘ٹرمینل چارجز کی مدمیں روزانہ تین کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدرسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین کا بیان

بدھ 2 دسمبر 2015 18:28

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 دسمبر۔2015ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے فرسٹ وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات نہ ہونے سے ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ بجلی کے شعبے میں چوری اور نقصانات وفاقی ترقیاتی بجٹ کے نصف سے زیادہ ہو گئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصانات 320 ارب روپے سالانہ ہیں جبکہ دیگرذرائع اسے 370 ارب سے زیادہ بتاتے ہیں جو ملک کو دیوالیہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ گردشی قرضہ 661 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ بجلی چوری اور نقصانات کی روک تھام دعووں تک محدود ہے جس کی وجہ سے نقصانات 18.6 فیصد سے بڑھ کر 18.7 فیصد ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

نیپرا نے حال ہی میں بجلی کی تقسیم کنندہ کمپنیوں کوایماندارصارفین پر بجلی چوری کا بوجھ بڑھانے کی اجازت دی ہے ۔ پہلے صارفین سے 13.1 فیصد نقصانات وصول کئے جاتے تھے جو اب 15.2 فیصد کر دئیے گئے ہیں ۔ ڈسکوز کی نجکاری سے صورتحال میں بہتری کا امکان تھا جس میں نو ماہ کی تاخیر کر دی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ گیس کمپنیوں کے بعض بیوروکریٹ ایل این جی منصوبے کو ناکام بنا رہے ہیں۔

نو ماہ گزرنے کے باوجودایل این جی امپورٹ کا معاہدہ نہیں ہو سکا ہے جبکہ روزانہ تقریباً تین کروڑ روپے ایل این جی ٹرمینل چارجزکی مد میں ادا کئے جا رہے ہیں جس کا سارا بوجھ بجلی کے صارفین پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ گیس کمپنیوں کی پائپ لائن میں اضافی گیس کی ٹرانسپورٹیشن کی استعداد کے باوجود اسے استعمال نہیں کیا جا رہا جس سے ملک و قوم کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔

اگر ایل این جی کے معاہدے ہو جائیں اور مسلسل درآمد یقینی بنائی جا سکے تو گیس کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا اور فرٹیلائیزر، ٹیکسٹائل، سی این جی اور جنرل انڈسٹری کو نئی زندگی مل جائے گی جس میں سب سے بڑی رکاوٹ گیس بیوروکریسی کا سرخ فیتہ اور پرانی سوچ ہے۔ اگر حکومت ایل این جی درآمد کرنے کے قابل نہیں تو نجی شعبہ کو اجازت دی جائے۔

متعلقہ عنوان :