فلسطینی لڑکے کے مقدمہ قتل میں دو یہودی مجرم قرار

اسرائیلی پراسیکیوٹرز نے فلسطینی لڑکے کے اغوا اور قتل کے الزام میں ان تینوں یہودیوں پر فرد جرم عائد کردی ش

بدھ 2 دسمبر 2015 20:28

مقبوضہ بیت المقدس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 دسمبر۔2015ء) اسرائیل کی ایک عدالت نے مقبوضہ بیت المقدس میں جولائی 2014 میں ایک نوعمر فلسطینی لڑکے کے سفاکانہ قتل کے الزام میں دو یہودیوں کو مجرم قرار دے دیا ہے۔البتہ عدالت نے تیسرے ملزم پر فرد جْرم عاید نہیں کی ہے کیونکہ اس کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے سے متعلق رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔

گذشتہ سال جولائی میں تین انتہا پسند یہودیوں نے سولہ سالہ محمد ابو خدیر کو مقبوضہ بیت المقدس سے اغوا کر لیا تھا۔انھوں نے پہلے اس کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پھر انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو زندہ جلا دیا تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی پراسیکیوٹرز نے اس فلسطینی لڑکے کے اغوا اور قتل کے الزام میں ان تینوں یہودیوں پر فرد جرم عاید کی تھی۔

(جاری ہے)

ان میں سے ایک مدعاعلیہ کی عمر اکتیس سال ہے اور وہ مغربی کنارے میں واقع یہودی بستی ایڈم کا رہنے والا ہے۔دوسرے دونوں مجرموں کی عمریں سولہ سولہ سال ہیں۔ان میں سے ایک مقبوضہ بیت المقدس اور ایک اس کے مغرب میں واقع اسرائیلی قصبے بیت شمش کا رہنے والا ہے۔ان تینوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔عدالت نے اکتیس سالہ یوسف حائم بن ڈیوڈ کو مجرم قرار نہیں دیا ہے اور آخری منٹ میں اس کے وکیل کی جانب سے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس کو ذہنی عارضہ لاحق ہے اور پاگل ہے۔

دوسرے دونوں مجرموں نے عدالت میں ابو خدیر کے اغوا ،اس کو تشدد کا نشانہ بنانے اور زندہ جلانے کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ انھوں نے یہ مجرمانہ کارروائی انہی دنوں تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا کے ردعمل میں کی تھی۔مقتول ابو خدیر کے والد حسین ابو خدیر نے تیسرے مجرم کے خلاف فیصلے میں تاخیر کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ تو ان تینوں کا رنگ لیڈر تھا۔

انھوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تینوں کے مکانات کو بھی بالکل اسی طرح مسمار کرے جس طرح وہ فلسطینیوں کے مکانوں کو مسمار کررہا ہے۔انھوں نے عدالت سے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''عدالت عربوں کے ساتھ اور طرح کا معاملہ کرتی ہے اور یہودیوں کے ساتھ اس سے مختلف انداز میں نمٹا جاتا ہے۔انھوں نے بن ڈیوڈ کی جانب سے آخری منٹ پر نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے سے متعلق رپورٹ پیش کیے جانے کو ایک حربہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس سے پہلے عدالت میں کیوں نہیں پیش کی گئی تھی۔

متعلقہ عنوان :