کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہیں کشمیر میں طالبان نہیں ہیں بلکہ مجاہدین ہیں جوآزادی کی جنگ لڑرہے ہیں

قومی ایکشن پلان میں فوج کو حکومت اور بیورور کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی‘سابق صدرپرویزمشرف کا غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

منگل 8 دسمبر 2015 21:35

کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہیں کشمیر میں طالبان ..

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔08 دسمبر۔2015ء) سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہیں کشمیر میں طالبان نہیں ہیں بلکہ مجاہدین ہیں جوآزادی کی جنگ لڑرہے ہیں‘ انھیں کشمیر اور پاکستان میں بہت بڑی مدد حاصل ہے، کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی بہت ساری تنظیمیں نکلیں جو کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے لیے وہاں لڑنے اور اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھیں، انھیں طالبان یا دہشت گرد نہیں کہتے ہیں، وہ تو ہمارے مجاہدین ہیں ہمارے فریڈم فائٹر ہیں۔

ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں جنرل پرویزمشرف نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ’مجاہدین‘ کا طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا تھا جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ الگ رہیں، یہ کیا انتہا پسندوں کے ساتھ مل رہے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ ہوا جس سے اور زیادہ گڑ بڑ ہوئی۔

(جاری ہے)

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پیش رفت بھی ہوئی، جنرل مشرف کا کہنا ہے کہ وہ مسئلے کی حل کی طرف جا رہے تھے۔

یہ سنہری موقع ہوتا ہے جب دونوں ممالک کے سربراہ ایک ہی سوچ رکھتے ہوں۔ اٹل بھاری واجپائی اور ان کے درمیان یہ اتفاق ہوا تھا کہ بہت نقصان اور ظلم ہو رہا اس کو ختم کرنا چاہیے۔اب نریندر مودی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے، وہ تو پاکستان کو مروڑنا اور دبانا چاہتے ہیں ان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں اگر وہ سوچ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملہ آگے نہیں بڑے گا۔

دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ صاف نیت سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، دل و دماغ سے اس کے حق میں نہیں ہیں اور حکومت میں کچھ عناصر ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ نظریاتی طور پر ملے ہوئے ہیں۔قومی ایکشن پلان میں فوج کو حکومت اور بیورور کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی۔سابق صدر نے لال مسجد آپریشن کے فیصلے کو درست قرار دیا او کہا کہ انھوں نے جو کیا وہ درست تھا’یہ دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں یقین رکھتے ہیں ان کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا جو میں نے کیا۔

اب وہ دوبارہ ابھر رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ فوری ایکشن لے کیونکہ جتنا دیر سے ایکشن لیں گے یہ جن اتنا ہی بڑا ہوتا رہے گا اور پھر بڑا ایکشن لینا پڑے گا۔القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کو انھوں نے مفاہمت نہیں انیٹلی جنس کی ناکامی قرار دیا، اور کہا کہ اس کو تسلیم کرنا چاہیے لیکن ان کی رائے ہے کہ وہ وہاں ایک بڑے عرصے سے مقیم نہیں تھا بلکہ آتا جاتا رہا ہوگا مقامی لوگوں کے میڈیا پر بیانات سے بھی یہی درست لگتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نیشنل سکیورٹی کونسل متعارف کرائی گئی تھی، پچھلے دنوں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا تھا کہ یہ ادارہ ناکام ثابت ہوا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے رضا ربانی کے موقف کو مسترد کیا اور کہا کہ انھوں نے پہلے ہی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ قومی سلامتی کونسل حکومت اور فوج پر ایک چیک ہے۔

حکومت پر آرٹیکل 58 ٹو بی کا چیک تھا جس کے ذریعے اسمبلی کو تحلیل کر دیا جاتا تھا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ صدر صاحب جب چاہتے اسمبلی کو تحلیل کردیتے، آرمی چیف مارشل لا لگا سکتا تھا اب وزیر اعظم اچھی گورننس نہیں کر رہا تو کیا کیا جائے؟ ان تینوں کا حل قومی سلامتی کونسل میں ہے‘جنرل پرویز مشرف کے مطابق حکومت میں جب گڑ بڑ ہو رہی ہوتی ہے یقیناً لوگ فوج کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں کہ کچھ کرو اب وہ کسی ادارتی تنظیم کاری کا حصہ نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ لوگ تو اس کی طرف جاتے ہیں کیونکہ طاقت ادھر ہے۔

جب آپ ان کو قومی سلامتی کونسل کا حصہ بنائیں گے تو کوئی آرمی چیف مارشل لا نہیں لگائے گا۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی بھی ایک دھماکے میں ہلاکت ہوئی۔ ان دونوں مقدمات میں جنرل پرویز مشرف کو نامزد کیا گیا، لیکن سماعت پر وہ کم ہی حاضر ہوتے ہیں۔

جنرل پرویزمشرف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ نو مرتبہ عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں، لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی پیٹھ میں ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے، جس کو فکس کیا گیا ہے، لیکن یہ خدشہ ہے کہ جھٹکوں وغیرہ سے سلپ ہوکر فریکچر خراب ہوجائے گا اس لیے انھیں احتیاط کرنی ہے۔یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں آگے نہیں جا رہے ہیں، ہر ہفتے تاریخ پڑ جاتی ہے یہ بات عدالتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :