آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کا دوسرا اجلاس

ہماری اردو زبان علمی زبان نہیں ہے اس برصغیر میں سنسکرت ایسی زبان رہی ہے جو مکمل زبان نہیں تھی، انتظار حسین

جمعرات 10 دسمبر 2015 22:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 دسمبر۔2015ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز دوسرا اجلاس "عصمت اور بیدی ۔ صد سالہ جشن" منعقد ہوا صدارتی خطاب میں ممتاز ادیب و ڈرامہ نگار انتظار حسین نے کہا کہ ہماری اردو زبان علمی زبان نہیں ہے اس برصغیر میں سنسکرت ایسی زبان رہی ہے جو مکمل زبان نہیں تھی اسی لئے وہ بہت جلد مرحوم زبانوں میں شامل ہوگئی انھوں نے کہا کہ اردو زبان کو ایک عورت ذات کی بہت ضرورت تھی کیونکہ عورتوں کہ یہاں کلچر ہمیشہ مـحفوظ رہتا ہے زبان کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ سانپ کے پھن کی طرح سامنے آجاتی ہیں ہماری زبان کی پوری تاریخ کو جس نے پہچانا ہے اور بیان کیا ہے وہ عصمت چغتائی ہے میرے خیال میں ہمیں عصمت چغتائی کو ایک بار پھر سے پڑھنا پڑھے گا ۔

(جاری ہے)

ممتاز دانشور شمیم حنفی نے کہا کہ میرے یاداشت میں جو تصویر ابھرتی ہے اس میں یہ بات نمایا ں ہے کہ عصمت آپا نے زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی وہ ہمیشہ حالات کا مقابلہ کر تی رہی ہیں لوگ ان سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اپنا اظہار برملا کر دیا کرتی تھیں۔ عصمت چغتائی کی تحریر ٹیڑھی لکیر کے ابتدا ء کے 82صفحات بہت قیمتی ہیں اور پطرس بخاری نے بھی اس کوبے حد سراہاہے عصمت اردو کی سب سے زیادہ فطری لکھنے والی تھی ان کی تحریر اپنے زمان و مکان سے جڑی ہوئی تھی بھارت سے آئے ہوئے ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی نے عصمت چغتائی کی تحریر"لحاف " کو بڑا فن پا رہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عصمت نے اردو ادب اور زبان میں نمایا ں خدمات انجام دی ہیں اپنے افسانے "دو ہاتھ" میں انہیں کئی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ بلکل نہیں گھبرائی عصمت چغتائی اور بیدی دونوں نے اپنے اپنے فکشن کو الگ الگ پیش کیا ہے معروف کالم نویس زاہدہ حنا نے کہا کہ ہم نے عصمت چغتائی کا حق ادا نہیں کیا جبکہ ہندوستان میں ان کی بہت قدر کی گئی عصمت کی تحریریں ضدّی اور منہ پھٹ ہوتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ روتی دھوتی عور ت ا نھیں اچھی نہیں لگتی ان کے افسانے لحاف پرفحش نگاری کا الزام لگازاہدہ حنا نے مزید کہا کہ عصمت چغتائی نے "کاغذی ہے پیراہن" میں عورت کو سماج میں دکھایا ہے آج ہر جگہ ویسی لڑکیا ں نظر آرہی ہیں ڈاکٹر آصف نے کہا کہ بیدی کو اصل شہرت 1939میں اپنے افسانے مہارانی کا تحفہ سے حاصل ہوئی بیدی نے با قائدہ تو نہیں لکھا لیکن وہ منٹو جیسے شخص کو بھی چت کر دیا کرتا تھا انھوں نے کہا کہ عصمت چغتائی وہ ادیبہ رہی ہیں جنہیں بے حد پڑھا گیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :