احتساب عدالت نے کرپشن کے الزام میں ڈاکٹرعاصم حسین کو 7روزہ ریمانڈپر نیب کے حوالے کردیا

ڈاکٹر عاصم کو 100روز تک ریمانڈ میں رکھا گیا مزید ریمانڈ نہیں لیا جا سکتا، میرے موکل کا مزید ریمانڈ آئین کے آرٹیکل 9کی خلاف ورزی ہے،وکیل عاصم حسین

جمعہ 11 دسمبر 2015 20:56

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 دسمبر۔2015ء) احتساب عدالت نے کرپشن اسکینڈل میں سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کو 7 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا ہے۔کراچی کی احتساب عدالت میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف کرپشن کے الزامات کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر نیب کے وکیل کا موقف تھا کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف منی لانڈرنگ اور زمینوں پر قبضے سمیت 5 مقدمات ہیں جن کی تحقیقات کرنی ہے۔

ڈاکٹر عاصم کی ہدایت پر پی ایس او اور ایس ایس جی سی کے ملازمین کو علاج معالجے کی غرض سے ضیاالدین اسپتال میں ریفرکیا جاتا تھا۔نیب کے وکیل کا موقف تھا کہ ڈاکٹر عاصم نے ایس ایس جی سی کے ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی کے ذریعے غیر قانونی بھرتیاں کیں، اس کے علاوہ ڈاکٹر عاصم نے اربوں روپے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوائے جب کہ ڈاکٹر عاصم نے کمرشل، انڈسٹریل اور کے الیکٹرک کو غیرقانونی کنکشن الاٹ کئے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عاصم سے متعلق نیب کی انکوائری کا نمبر 231097 ہے، ملزم کے خلاف بہت سے کرپشن الزامات کی تحقیقات کرنی ہے، ریمانڈ کی صورت میں انہیں ہر قسم کی طبی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی لہذا ڈاکٹر عاصم کا 14 روزہ ریمانڈ دیا جائے۔ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے نیب کی جانب سے ریمانڈ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نیب موکل کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے، نیب نے تحقیقات کی کوئی ڈائری عدالت میں پیش نہیں کی، عدالت نے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ ڈاکٹر عاصم سے تحقیقات کر سکتے ہیں تو پھر تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں، نیب حکام 2 مربتہ تھانے گئے، تفتیش کیوں نہیں کی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کو 100 روز تک ریمانڈ میں رکھا گیا مزید ریمانڈ نہیں لیا جا سکتا، میرے موکل کا مزید ریمانڈ آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے، ایک ہی کیس میں ڈاکٹر عاصم سے کتنی بار تفتیش کی جائے گی۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ریمانڈ کی صورت میں موکل کو اہلخانہ اور وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے، گھر کا کھانا اور ادویات لانے کی بھی اجازت بھی دی جائے۔

عدالت نے نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو 7 روز کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا اور حکم دیا کہ دوران تفتیش ڈاکٹر عاصم کو ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔قبل ازیں ڈاکٹر عاصم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں گلبرگ تھانے سے سندھ ہائی کورٹ لایا گیا۔ اس موقع پر پولیس کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف لگائے گئے الزامات کے ثبوت نہیں ملے اس لئے عدم شواہد کی بنا پر انہیں رہا کر رہے ہیں، سابق تفتیشی افسر نے بھی ان کے خلاف لگائی گئی کئی دفعات ختم کردی تھیں۔

رینجرز کے لا آفیسر کی جانب سے پولیس افسر کی رپورٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس کو دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ملزم کو رہا کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے تو پھر پولیس ملزم کو کیسے رہا کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے خود دہشت گردوں کا علاج کرنے کا اعتراف کیا تھا اور جن دہشت گردوں کا علاج کیا گیا ان میں مفرور دہشت گردوں پر حکومت نے انعام کا اعلان بھی کر رکھا تھا جب کہ ڈاکٹر یوسف ستار بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم نے دہشت گردوں کا علاج کیا۔

7 سینئر ترین افسروں کو ڈی ایس پی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے جب کہ آئی جی سندھ نے گواہوں کو بتائے بغیر ہی تفتیشی افسر تبدیل کر دیا۔رینجرز لا آفیسر کا کہنا تھا کہ ضیا الدین اسپتال میں ایم کیو ایم، لیاری کے گینگسٹر اور کالعدم تنطیموں کے دہشت گردوں کا علاج ہوتا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں زخمی ہونے والے دہشت گردوں کا بھی علاج کیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ خدمت خلق فانڈیشن کو 50 فیصد رعایت دی جاتی تھی۔ پبلک پراسیکیوٹر مشتاق جہانگیر نے ضیا الدین اسپتال کے بل بھی پیش کئے جب کہ ڈاکٹر یوسف ستار اور ایک رکشہ ڈرائیور کے اقبالی بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ دہشت گردوں کو اسپتال پہنچانے والے رکشہ ڈرائیور غلام رسول کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اس نے لیاری گینگ وار کے اہم رکن ظفر بلوچ اور عمر کچھی کے اہلخانہ کو اسپتال پہنچایا، ظفر بلوچ اور عمر کچھی بھی اسپتال میں موجود تھے۔

رینجرز لا آفیسر کے بیان کو ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز نے ڈٓاکٹر عاصم کو 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھا، ان پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور کہانیاں ہیں۔ ڈاکٹر عاصم پر ہر مریض کا علاج کرنا فرض ہے۔ دوسری جانب نیب پراسیکیوٹر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمیں کرپشن اسکینڈل میں ملزم کی تحویل چاہیئے اس لئے نیب کورٹ سے ملزم کا ریمانڈ حاصل کریں گے۔

سابق وزیر داخلہ سندھ ڈٓاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی اپنے بیان میں کہا وہ بھی ڈاکٹر عاصم سے متعلق کچھ شواہد عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پولیس کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ نے ڈاکٹر عاصم کو رہا کر دیا ہے یا کر رہے ہیں؟، اگر ڈاکٹر عاصم کو رہا کر دیا ہے تو پھر انہیں عدالت میں کیوں پیش کیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ڈی ایس پی الطاف حسین نے پوچھا کہ دفعہ 173 کی رپورٹ کہاں ہے جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ رپورٹ جمع کرانے کے لئے ٹائم دیا جائے۔عدالت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا معاملہ التوا میں ڈالتے ہوئے کہا کہ چالان جمع ہونے پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :